برائے اصلاح: کیا سے انسان کو کیا پیار بنا دیتا ہے

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
ایک میراتھن غزل کا حصہ اوّل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے - تمام اشعار کی اصلاح کے بعد دیکھوں گا کہ انہیں کیا شکل دی جائے

کیا سے انسان کو کیا پیار بنا دیتا ہے
زاہدِ خشک کو مَے خوار بنا دیتا ہے

کتنا ظالم ہے بھلا عشق کہ عاشق کے لیے
غم دہندہ کو ہی غم خوار بنا دیتا ہے

میری حالت پہ جو ہنستے ہیں، انہیں علم نہیں
عشق انسان کو لا چار بنا دیتا ہے

وہ نہیں چاہتا، دل اس کا مرے دل سے ملے
میں گراتا ہوں، وُہ دیوار بنا دیتا ہے

میرا سب سے بڑا دشمن ہے مقدر میرا
میرے سب راستے پُر خار بنا دیتا ہے
یا
سب کھُلے راستے پُر خار بنا دیتا ہے

خوں رُلانے کو کہانی میں مصنف اپنی
میرے جیسے کئی کردار بنا دیتا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
ایک میراتھن غزل کا حصہ اوّل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے - تمام اشعار کی اصلاح کے بعد دیکھوں گا کہ انہیں کیا شکل دی جائے

کیا سے انسان کو کیا پیار بنا دیتا ہے
زاہدِ خشک کو مَے خوار بنا دیتا ہے
پہلا مصرع تو میرے سر کے اوپر سے گزر گیا!
کتنا ظالم ہے بھلا عشق کہ عاشق کے لیے
غم دہندہ کو ہی غم خوار بنا دیتا ہے
بھلا کی کیا معنویت ہے یہاں؟
میری حالت پہ جو ہنستے ہیں، انہیں علم نہیں
عشق انسان کو لا چار بنا دیتا ہے
درست
وہ نہیں چاہتا، دل اس کا مرے دل سے ملے
میں گراتا ہوں، وُہ دیوار بنا دیتا ہے
ٹھیک
میرا سب سے بڑا دشمن ہے مقدر میرا
میرے سب راستے پُر خار بنا دیتا ہے
یا
سب کھُلے راستے پُر خار بنا دیتا ہے
جو مرے راستے... بہتر نہیں؟
خوں رُلانے کو کہانی میں مصنف اپنی
میرے جیسے کئی کردار بنا دیتا ہے
درست
 

مقبول

محفلین
شُکریہ ، سر الف عین
اب دیکھیے مطلع اور دوسرا شعر
کیا سے کیا آدمی کو پیار بنا دیتا ہے
زاہدِ خشک کو مَے خوار بنا دیتا ہے

کتنا بے رحم ہے یہ عشق کہ عاشق کے لیے
غم دہندہ کو ہی غم خوار بنا دیتا ہے
 

مقبول

محفلین
سر الف عین
حصہ دوم اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے
بادشہ کا ہے وہی شخص الٹتا تختہ
خود وُہ چن کر جسے سالار بنا دیتا ہے

راج کرتا ہے مرے ملک پہ وُہ جادوگر
جب بھی چاہے نئی سرکار بنا دیتا ہے

انتخابات میں ہو جیت گیا کوئی بھی
اک اشارے سے اسے ہار بنا دیتا ہے

جس کو چاہے وُہ وفاؤں کی سند کر دے عطا
جس کو چاہے اسے غدّار بنا دیتا ہے

جو بھی تنقید کرے اس پہ ، تو وُہ کاٹ کے سر
شہر کے چوک پہ مینار بنا دیتا ہے

گر کسی قوم کو دینی ہو خدا نے ذلت
بے سروں کو بھی وُہ سردار بنا دیتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں آدمی کی ی کا اسقاط اب بھی ناگوار ہے، فرد لانے کی کوشش کرو یا نشست بدلو آدمی کی۔
دوسرا شعر درست
نئے اشعار میں
بادشہ والا رواں نہیں لگتا ۔ اس کے علاوہ بنا دیتا ہے ردیف سے بات حال کی معلوم ہوتی ہے، یعنی مفہوم کے اعتبار سے بھی درست "بناتا ہے" ہو گا، یعنی indefinite tenseمیں۔
باقی اشعار درست ہیں، بس آخری شعر میں پنجابی محاورہ در آیا ہے
خدا کو ڈلت... درست ہو گا
 

مقبول

محفلین
مطلع میں آدمی کی ی کا اسقاط اب بھی ناگوار ہے، فرد لانے کی کوشش کرو یا نشست بدلو آدمی کی۔
دوسرا شعر درست
نئے اشعار میں
بادشہ والا رواں نہیں لگتا ۔ اس کے علاوہ بنا دیتا ہے ردیف سے بات حال کی معلوم ہوتی ہے، یعنی مفہوم کے اعتبار سے بھی درست "بناتا ہے" ہو گا، یعنی indefinite tenseمیں۔
باقی اشعار درست ہیں، بس آخری شعر میں پنجابی محاورہ در آیا ہے
خدا کو ڈلت... درست ہو گا
سر الف عین
بہت شُکریہ، اب دیکھیے
حصہ اوّل کا مطلع
کیا اصل مطلع کو کوما کے استعمال کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے
کیا سے انسان کو، کیا پیار بنا دیتا ہے
زاہدِ خشک کو مَے خوار بنا دیتا ہے
کچھ اشعار مزید ڈال کر اسے مکمل غزل کی صورت دی ہے
وہ سزا دیتا ہے، چاہے نہ کروں جرم قبول
میرے انکار کو اقرار بنا دیتا ہے

یوں نہیں لوگ اسے دیکھتے ہی جی اُٹھتے
کچھ تو ہے، اس کو جو دلدار بنا دیتا ہے

دیکھ لے جس کو، وہ پاتا ہے زیارت کا مقام
جس کو چھو لے، اسے شہکار بنا دیتا ہے

میرے اندر ہے کوئی اور جو مقبول، مرے
دل کے جذبات کو اشعار بنا دیتا ہے

بادشہ والے شعر کو حصہ دوئم (الگ غزل) کامطلع بنانا چاہتا ہوں
شہ سے قیدی ، مجھے سالار بنا دیتا ہے
سانس لینا مرا دشوار بنا دیتا ہے

آخری شعر کو حصہ دوم کا مقطع بنانا چاہتا ہوں
جب بھی مقبول، ہے قوموں کو خدا کرتا ذلیل
بے سروں کو بھی وُہ سردار بنا دیتا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
باقی اشعار تو درست ہیں لیکن مطلع بدل ہی دو، یہ خیال اچھا ہے، اسے کہیں اور دوسرے الفاظ یا زمین میں استعمال کرو۔کیونکہ محاورے کے حساب سے " پیار انسان کو کیا سے کیا بنادیتا ہے" ہونا چاہئے، پیار بطور قافیہ درست نہیں ہوتا
 

مقبول

محفلین
باقی اشعار تو درست ہیں لیکن مطلع بدل ہی دو، یہ خیال اچھا ہے، اسے کہیں اور دوسرے الفاظ یا زمین میں استعمال کرو۔کیونکہ محاورے کے حساب سے " پیار انسان کو کیا سے کیا بنادیتا ہے" ہونا چاہئے، پیار بطور قافیہ درست نہیں ہوتا
سر الف عین ، بہت مہربانی
مطلع کا پہلا مصرعہ تبدیل کیا ہے
عشق زردار کو نادار بنا دیتا ہے
زاہدِ خشک کو مَے خوار بنا دیتا ہے
 
Top