مقبول
محفلین
محترمین
سر الف عین ، دیگر اساتذہ کرام اور احباب
ایک غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے
ہاتھ خالی لیے جب شام کو گھر جاتا ہوں
بچوں کے سامنے میں شرم سے مر جاتا ہوں
بانٹتا پھرتا ہے پروانۂ موت آمرِ وقت
در پہ دستک بھی کوئی دے تو میں ڈر جاتا ہوں
خوف سے لوگ ہیں دبکے ہوئے کونوں میں سبھی
ہو کا عالم ہے میں گاؤں میں جدھر جاتا ہوں
گیت گاتا تھا ترے جن پہ کبھی چلتے ہوئے
اب میں چپ چاپ انہی رستوں سے گذر جاتا ہوں
ہیں زبان اور ثقافت بھی مری مقتل میں
دیکھ کر ظلم یہ روتا ہوں بکھر جاتا ہوں
جانتا ہوں یہ کہ انصاف نہیں ملنا مجھے
میں عدالت میں رکھے ہاتھ پہ سر جاتا ہوں
جب وطن آیا تو آنکھوں میں بھرے تھے جگنو
واپسی پر لیے میں دیدۂ تر جاتا ہوں
ملک اپنا تو ہے مقبول، میں رہ سکتا نہیں
کٹ رہے خواب بھی ہیں مثلِ شجر، جاتا ہوں
سر الف عین ، دیگر اساتذہ کرام اور احباب
ایک غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے
ہاتھ خالی لیے جب شام کو گھر جاتا ہوں
بچوں کے سامنے میں شرم سے مر جاتا ہوں
بانٹتا پھرتا ہے پروانۂ موت آمرِ وقت
در پہ دستک بھی کوئی دے تو میں ڈر جاتا ہوں
خوف سے لوگ ہیں دبکے ہوئے کونوں میں سبھی
ہو کا عالم ہے میں گاؤں میں جدھر جاتا ہوں
گیت گاتا تھا ترے جن پہ کبھی چلتے ہوئے
اب میں چپ چاپ انہی رستوں سے گذر جاتا ہوں
ہیں زبان اور ثقافت بھی مری مقتل میں
دیکھ کر ظلم یہ روتا ہوں بکھر جاتا ہوں
جانتا ہوں یہ کہ انصاف نہیں ملنا مجھے
میں عدالت میں رکھے ہاتھ پہ سر جاتا ہوں
جب وطن آیا تو آنکھوں میں بھرے تھے جگنو
واپسی پر لیے میں دیدۂ تر جاتا ہوں
ملک اپنا تو ہے مقبول، میں رہ سکتا نہیں
کٹ رہے خواب بھی ہیں مثلِ شجر، جاتا ہوں
آخری تدوین: