یاسر علی
محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
فیض احمد فیض کی زمین میں
ہمارے شہر سے وہ جب گزرنے لگتے ہیں۔
بصد گلاب کے گل تب بکھرنے لگتے ہیں ۔
اداس راتوں میں شب بھر ،مرے دریچے پر
تمھاری یاد کے جگنو اترنے لگتے ہیں۔
ہماری سانس بدن سے جدا ہو جائے، جب
تمھاری یاد کو آزاد کرنے لگتے ہیں۔
کسی غریب کے ماتھے پہ مفلسی دیکھوں
تو میری آنکھ سے آنسو ابھرنے لگتے ہیں۔
جمالِ حسن کی حدت سے لرزے آئنہ، جب
وہ آ کے سا منے میثم سنورنے لگتے ہیں۔
محمّد احسن سمیع :راحل:
فیض احمد فیض کی زمین میں
ہمارے شہر سے وہ جب گزرنے لگتے ہیں۔
بصد گلاب کے گل تب بکھرنے لگتے ہیں ۔
اداس راتوں میں شب بھر ،مرے دریچے پر
تمھاری یاد کے جگنو اترنے لگتے ہیں۔
ہماری سانس بدن سے جدا ہو جائے، جب
تمھاری یاد کو آزاد کرنے لگتے ہیں۔
کسی غریب کے ماتھے پہ مفلسی دیکھوں
تو میری آنکھ سے آنسو ابھرنے لگتے ہیں۔
جمالِ حسن کی حدت سے لرزے آئنہ، جب
وہ آ کے سا منے میثم سنورنے لگتے ہیں۔