یاسر علی
محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن
ہم تری یاد کو ،چپکے سے بلا لیتے ہیں
اس لئے اشک ،جدائی میں بہا لیتے ہیں
تم تو ساجن ہو، تمہیں کیوں نہ سمائیں دل میں؟
ہم تو دشمن کو بھی سینے سے لگا لیتے ہیں
باندھ لیں سینے پہ، تو ہم کو شفا ملتی ہے
جب ترے نام کا تعویز، بنا لیتے ہیں
تیرے لوٹ آنے کی، جب کوئی خبر ملتی ہے
ہم تری راہ میں پلکوں کو بچھا لیتے ہیں
روبرو بیٹھے ہیں! نظریں نہ ملا پائیں ہم
اک نظر دیکھ کے ،آنکھوں کو جھکا لیتے ہیں
جب ترا ہجر بہت حد سے گزرتا ہے تو ہم
تیری تصویر کو سینے سے لگا لیتے ہیں
میرا کمرہ تری خوشبو سے مہک اٹھتا ہے
جب ترے لب، کسی کاغذ پہ بنا لیتے ہیں
ہم بھٹکتے نہیں میثم شبِ ظلمت میں کبھی
اک تری یاد کی جو شمع جلا لیتے ہیں
یاسر علی میثم
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن
ہم تری یاد کو ،چپکے سے بلا لیتے ہیں
اس لئے اشک ،جدائی میں بہا لیتے ہیں
تم تو ساجن ہو، تمہیں کیوں نہ سمائیں دل میں؟
ہم تو دشمن کو بھی سینے سے لگا لیتے ہیں
باندھ لیں سینے پہ، تو ہم کو شفا ملتی ہے
جب ترے نام کا تعویز، بنا لیتے ہیں
تیرے لوٹ آنے کی، جب کوئی خبر ملتی ہے
ہم تری راہ میں پلکوں کو بچھا لیتے ہیں
روبرو بیٹھے ہیں! نظریں نہ ملا پائیں ہم
اک نظر دیکھ کے ،آنکھوں کو جھکا لیتے ہیں
جب ترا ہجر بہت حد سے گزرتا ہے تو ہم
تیری تصویر کو سینے سے لگا لیتے ہیں
میرا کمرہ تری خوشبو سے مہک اٹھتا ہے
جب ترے لب، کسی کاغذ پہ بنا لیتے ہیں
ہم بھٹکتے نہیں میثم شبِ ظلمت میں کبھی
اک تری یاد کی جو شمع جلا لیتے ہیں
یاسر علی میثم