برائے اصلاح: ہم خود ہی ساقی بن بیٹھے ہم خود بھر لائے پیمانہ

مقبول

محفلین
محترم سر الف عین
یہ غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے

ہم جن ہاتھوں سے پیتے تھے وُہ ویراں کر گئے جب میخانہ
ہم خود ہی ساقی بن بیٹھے ہم خود بھر لائے پیمانہ

جنت کے باغ بھی ملنے ہیں حوریں بھی خدمت میں ہوں گی
یہ سچ ہے پھر بھی مرنے کا اک خوف ہے طاری انجانا

کہتے ہیں سب میرے معالج، چھوڑ دو اس کو حال پہ اِس کے
پڑتا ہے اس کو سچ کا دورہ ، یہ تو ہے اک دیوانہ

باہر جو رونق وونق ہے یہ ساری دنیا داری ہے
اک دشت کی سی کیفیت ہے اندر ہے میرے ویرانہ

میں بن چاہے دنیا میں آیا اور زندہ بھی رہنا ہے
مجھ کو ہے جبراً پیدا ہونے کا بھرنا یہ ہرجانہ

ہم پیارے ہو گئے ہیں غم کو اور ہم کو بھی ہے غم پیارا
یہ مر کے ہی اب ٹوٹے گا یہ برسوں کا ہے یارانہ

ایماں والے کم ہی دیکھے ایماں کے دعوے داروں میں
چھانی ہے مسجد مسجد ہم نے ، دیکھا ہر اک بت خانہ

ہر کوئی اپنے مطلب پر ہے ہر کوئی بولے اپنی بولی
کوئی بھی وقت پہ کام نہ آئے ، ہو اپنا چاہے بیگانہ

کس کو کیا کیسے ملتا ہے یہ ہیں سب اندازے مقبول
بس قسمت ہی حقیقت ہے باقی سارا ہے افسانہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اس کی بحر کون سی ہے؟ مفعول مفاعیلن فعلن دو بار ( جو مساوی ہے آٹھ بار فعلن کے) یا فعلن فعلن سات بار؟ مطلع میں تو ساڑھے آٹھ بار ہے پہلے مصرع میں؟
 

مقبول

محفلین
اس کی بحر کون سی ہے؟ مفعول مفاعیلن فعلن دو بار ( جو مساوی ہے آٹھ بار فعلن کے) یا فعلن فعلن سات بار؟ مطلع میں تو ساڑھے آٹھ بار ہے پہلے مصرع میں؟
سر الف عین
یہ آٹھ بار فعلن والی بحر ہے بمعہ اس کے کچھ ڈیریویٹوز کے 😁😁
 

مقبول

محفلین
Derivatives کا محل بحر ہندی میں کہاں؟ مطلع کا پہلا مصرع تو تقطیع میں نہیں آتا
سر، پہلے مصرعے کی تقطیع یہ بن رہی تھی
فعلن فعلن فعْل فعولن فعْل فعولن فعْل فعولن

لیکن اب کوشش کی ہے کہ فعلن کی تکرار زیادہ سے زیادہ ہو۔ اب دیکھیے

جن ہاتھوں سے پیتے تھے ہم چھوڑ گئے وُہ جب میخانہ
ہم خود ہی ساقی بن بیٹھے ہم خود بھر لائے پیمانہ

جنت کے باغ بھی ملنے ہیں حوریں بھی خدمت میں ہوں گی
یہ سچ ہے پھر بھی مرنے کا خوف ہے اک طاری انجانا

میرے اپنے بھی کہتے ہیں ، چھوڑو اس کو حال پہ اِس کے
پڑتا ہے اس کو سچ کا دورہ ، یہ تو ہے اک دیوانہ

باہر جو رونق وونق ہے یہ ساری دنیا داری ہے
اک دشت کی سی کیفیت ہے اندر ہے میرے ویرانہ

میں بن چاہے آیا دنیا میں اور زندہ بھی رہنا ہے
مجھ کو ہے جبراً پیدا ہونے کا بھرنا یہ ہرجانہ

ہم پیارے ہو گئے ہیں غم کو اور ہم کو بھی ہے غم پیارا
یہ مر کے ہی اب ٹوٹے گا یہ برسوں کا ہے یارانہ

ایماں والے کم ہی دیکھے ایماں کے دعوے داروں میں
چھانی ہے مسجد مسجد ہم نے ، دیکھا ہر اک بت خانہ

سب ہی اپنے مطلب کے ہیں سب ہی بولیں اپنی بولی
کام نہ اوروں کے آئے کوئی اپنا ہو یا بیگانہ

کس کو کیا کیسے ملتا ہے یہ ہیں سب اندازے مقبول
بس قسمت ہی حقیقت ہے باقی سارا ہے افسانہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
فعلن فعلن
ہم جن.. ہاتھوں... سے پی.. تے تھے... وہ وی... راں کر... گئے جب...مے خا... کمل ہو گئے افاعیل، یہ فعلن فعلن سے کی ہے، چاہے فعل فعولن سے کرو، لیکن آخر کا نہ بحر میں نہیں آتا
فعل فعولن سے دیکھو
ہم جن ہاتھوں... سےپیتے تھے... وہ ویراں کر،... گیے جب مے خا؟
بہر حال اب تو تم نے مصرع درست کر ہی دیا ہے تو اب دیکھتا ہوں
 

مقبول

محفلین
فعلن فعلن
ہم جن.. ہاتھوں... سے پی.. تے تھے... وہ وی... راں کر... گئے جب...مے خا... کمل ہو گئے افاعیل، یہ فعلن فعلن سے کی ہے، چاہے فعل فعولن سے کرو، لیکن آخر کا نہ بحر میں نہیں آتا
فعل فعولن سے دیکھو
ہم جن ہاتھوں... سےپیتے تھے... وہ ویراں کر،... گیے جب مے خا؟
بہر حال اب تو تم نے مصرع درست کر ہی دیا ہے تو اب دیکھتا ہوں
بہت شکریہ، سر الف عین
آپ کی رائے کا منتظر ہوں
 

الف عین

لائبریرین
ہم جن ہاتھوں سے پیتے تھے چھوڑ گئے وُہ جب میخانہ
ہم خود ہی ساقی بن بیٹھے ہم خود بھر لائے پیمانہ
.. جب وہ چھوڑ گئے میخانہ
کیسا رہے گا؟
جنت کے باغ بھی ملنے ہیں حوریں بھی خدمت میں ہوں گی
یہ سچ ہے پھر بھی مرنے کا خوف ہے اک طاری انجانا
دوسرا مصرع روانی کا طلب گار ہے
ایک صورت
.. طاری ہے خوف اک انجانا
اگرچہ معلوم ہے کہ موت کا خوف ہے تو انجانا کیسے ہوا؟
میرے اپنے بھی کہتے ہیں ، چھوڑو اس کو حال پہ اِس کے
پڑتا ہے اس کو سچ کا دورہ ، یہ تو ہے اک دیوانہ
اس کو پڑتا ہے سچ کا دورہ....
باہر جو رونق وونق ہے یہ ساری دنیا داری ہے
اک دشت کی سی کیفیت ہے اندر ہے میرے ویرانہ
اک دشت... والا ٹکڑا بدل دو میری رائے میں، ویرانہ ہی کافی ہے
جھانکو گے اگر.. یا اس قسم کے الفاظ سے مصرع مکمل کیا جائے
میں بن چاہے آیا دنیا میں اور زندہ بھی رہنا ہے
مجھ کو ہے جبراً پیدا ہونے کا بھرنا یہ ہرجانہ
زندہ رہنا ہے... کا بیانیہ ٹھیک نہیں لگتا،
میں بن چاہے دنیا میں آیا ہوں اور اب تک/بھی زندہ ہوں
مجھ کو جبراً پیدا ہونے کا بھرنا ہے یہ ہرجانہ
شاید بہتر رہے
ہم پیارے ہو گئے ہیں غم کو اور ہم کو بھی ہے غم پیارا
یہ مر کے ہی اب ٹوٹے گا یہ برسوں کا ہے یارانہ
دوسرے مصرعے میں دو بار "یہ" مت رکھو، کچھ الفاظ بدلو
مر کر ہی شاید ٹوٹے گا، یہ برسوں کا ہے یارانہ
ایماں والے کم ہی دیکھے ایماں کے دعوے داروں میں
چھانی ہے مسجد مسجد ہم نے ، دیکھا ہر اک بت خانہ
چھانی مسجد مسجد ہم نے، دیکھا ہے ہر اک بت خانہ
چاہو تو
چھانی ہے مسجد مسجد... بھی کر سکتے ہو، چھانی اور ہے دونوں کی آخری ی/ے کا اسقاط کر کے
اس بحر میں بھی چار فعلن یا دو بار فعل فعولن میں جملہ مکمل ہو سکے تو روانی بہتر رہتی ہے۔
سب ہی اپنے مطلب کے ہیں سب ہی بولیں اپنی بولی
کام نہ اوروں کے آئے کوئی اپنا ہو یا بیگانہ
وہی بات جو اوپر بیان کی ہے
دوسرا مصرعہ بدلو
کس کو کیا کیسے ملتا ہے یہ ہیں سب اندازے مقبول
بس قسمت ہی حقیقت ہے باقی سارا ہے افسانہ
آخر میں فعلن کو فعلان کرنا اچھا نہیں
.. یہ مقبول سب اندازے ہیں
بس قسمت ہے اصل حقیقت، باقی ہے سارا افسانہ
میری تجاویز سے کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے روانی میں؟ خود ہی الفاظ اور ان کی ترتیب بدل کر کیوں نہیں دیکھ لیتے؟
 
ہم جن ہاتھوں سے پیتے تھے چھوڑ گئے وُہ جب میخانہ
ہم خود ہی ساقی بن بیٹھے ہم خود بھر لائے پیمانہ

سر الف عین صاحب! ایک تجویز ہے
جن کے ہاتھوں سے پیتے تھے، وہ چھوڑ گئے جب میخانہ
ہم خود ہی ساقی بن بیٹھے ہم خود بھر لائے پیمانہ
 

مقبول

محفلین
سر الف عین
بہت شکریہ
میری تجاویز سے کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے روانی میں؟ خود ہی الفاظ اور ان کی ترتیب بدل کر کیوں نہیں دیکھ لیتے؟
سر، یقیناً آپ کی تجاویز سے بہتری ہوتی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے مجھ میں نااہلِ زباں اور کم پڑھ ہونے کی وجہ سے اعتماد کی کمی ہے۔ بعض اوقات ایساُبھی ہوتا ہے کہ آپ کی کچھ تجاویز ک طرح کی آئٹریشن میں پہلے کر چکا ہوتا ہوں لیکن سوچتا ہوں کہ پتہ نہیں یہ درست ہوں گی کہ نہیں۔ پھرُکسی اور طرف چل پڑتا ہوں
اور سب سے اہم بات یہ کہ اگر میں سب کچھ خود ٹھیک طریقے سے کر لوں گا تو آپ کی ڈانٹ کا لطف کیسے اٹھاؤں گا 😁😁
مزید برآں آپ کے اٹھائے نکات سے میری منجد سوچ میں کئی در کھُل جاتے ہیں ۔ جس سے بعض اوقات تو پوری کی پوری ابتدائی غزل تبدیل ہو کر ایک بالکل نئی اور بہتر صورت اختیار کر لیتی ہے
کچھ تبدیلیاں کی ہیں ۔ اب دیکھیے
.. جب وہ چھوڑ گئے میخانہ
کیسا رہے گا؟
جن ہاتھوں سے پیتے تھے ہم جب وُہ چھوڑ گئے میخانہ
ہم خود ہی ساقی بن بیٹھے ہم خود بھر لائے پیمانہ
دوسرا مصرع روانی کا طلب گار ہے
ایک صورت
.. طاری ہے خوف اک انجانا
اگرچہ معلوم ہے کہ موت کا خوف ہے تو انجانا کیسے ہوا؟
جنت کے باغ بھی ملنے ہیں حوریں بھی خدمت میں ہوں گی
کچھ تو ہے کہ بعد از موت کا پھر بھی خوف ہے اک انجانا
اس کو پڑتا ہے سچ کا دورہ..
میرے اپنے بھی کہتے ہیں ، چھوڑو اس کو حال پہ اِس کے
اس کو پڑتا ہے سچ کا دورہ ، یہ تو ہے اک دیوانہ
اک دشت... والا ٹکڑا بدل دو میری رائے میں، ویرانہ ہی کافی ہے
جھانکو گے اگر.. یا اس قسم کے الفاظ سے مصرع مکمل کیا جائے
باہر جو رونق وونق ہے یہ ساری دنیا داری ہے
اندر ہے سناٹا میرے ہر سُو پھیلا ہے ویرانہ
زندہ رہنا ہے... کا بیانیہ ٹھیک نہیں لگتا،
میں بن چاہے دنیا میں آیا ہوں اور اب تک/بھی زندہ ہوں
مجھ کو جبراً پیدا ہونے کا بھرنا ہے یہ ہرجانہ
شاید بہتر رہے
میں بن چاہے دنیا میں آیا اور اب تک زندہ بھی ہوں
مجھ کو جبراً پیدا ہونے کا یہ بھرنا ہے ہرجانہ
دوسرے مصرعے میں دو بار "یہ" مت رکھو، کچھ الفاظ بدلو
مر کر ہی شاید ٹوٹے گا، یہ برسوں کا ہے یارانہ
ایسے کر دیا ہے
چھانی مسجد مسجد ہم نے، دیکھا ہے ہر اک بت خانہ
چاہو تو
چھانی ہے مسجد مسجد... بھی کر سکتے ہو، چھانی اور ہے دونوں کی آخری ی/ے کا اسقاط کر کے
اس بحر میں بھی چار فعلن یا دو بار فعل فعولن میں جملہ مکمل ہو سکے تو روانی بہتر رہتی ہے
ایماں والے کم ہی دیکھے ایماں کے دعوے داروں میں
چھانی ہے مسجد مسجد ہم نے ، دیکھا ہے ہر اک بت خانہ
وہی بات جو اوپر بیان کی ہے
دوسرا مصرعہ بدلو
سب ہی اپنے مطلب کے ہیں سب ہی بولیں اپنی بولی
کوئی ملتا بے غرض نہیں وُہ اپنا ہو یا بیگانہ
آخر میں فعلن کو فعلان کرنا اچھا نہیں
.. یہ مقبول سب اندازے ہیں
بس قسمت ہے اصل حقیقت، باقی ہے سارا افسانہ
کس کو کیا کیسے ملتا ہے یہ مقبول ہیں سب اندازے
بس قسمت ہے اصل حقیقت ، باقی ہے سارا افسانہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کچھ تو ہے کہ بعد از موت کا پھر بھی خوف ہے اک انجانا
کہ دو حرفی؟ اس کی جگہ "جو" رکھو
کوئی ملتا بے غرض نہیں وُہ اپنا ہو یا بیگانہ
یہ بھی پسند نہیں آیا روانی کے اعتبار سے
بے غرض نہیں ملتا کوئی... اس سے تو بہتر ہے لیکن پھر بھی متبادل کی تلاش کرو
باقی اشعار درست ہیں
 

مقبول

محفلین
سر الف عین ، بہت شکریہ
آپ کو اور تمام روزہ رکھنے والوں کو رمضان مبارک
کہ دو حرفی؟ اس کی جگہ "جو" رکھو
تبدیل کر دیا ہے
یہ بھی پسند نہیں آیا روانی کے اعتبار سے
بے غرض نہیں ملتا کوئی... اس سے تو بہتر ہے لیکن پھر بھی متبادل کی تلاش کرو
سب چلتے ہیں اپنی چالیں سب بولیں ہیں اپنی بولی
غرض کے بندے ہیں سارے کوئی اپنا ہو یا بیگانہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ شعر بہت اچھا ہے اگر اس طرح یہ شعر ہو تو وزن میں بھی ہو جائے گا۔
ہم جن ہاتھوں سے پیتے تھے وُہ ویراں کر گئے میخانہ
ہم خود ہی ساقی بن بیٹھے ہم خود بھر لائے پیمانہ
 

مقبول

محفلین
یہ شعر بہت اچھا ہے اگر اس طرح یہ شعر ہو تو وزن میں بھی ہو جائے گا۔
ہم جن ہاتھوں سے پیتے تھے وُہ ویراں کر گئے میخانہ
ہم خود ہی ساقی بن بیٹھے ہم خود بھر لائے پیمانہ
فرخ صاحب، آپ کی توجہ، شعر پسند کرنے اور تجویز کے لیے بہت شکریہ۔
اس بحر میں آٹھ بار فعْلن یا فعْلن اور فعل فعولن کے جتنے کمبینیشن ہونے چاہئیں اس مصرع میں وہ شرط پوری نہیں ہوتی ۔ مزید یہ کہ میں پہلے مصرع میں جب بھی لانا چاہتا ہوں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ صاحب، آپ کی توجہ، شعر پسند کرنے اور تجویز کے لیے بہت شکریہ۔
اس بحر میں آٹھ بار فعْلن یا فعْلن اور فعل فعولن کے جتنے کمبینیشن ہونے چاہئیں اس مصرع میں وہ شرط پوری نہیں ہوتی ۔ مزید یہ کہ میں پہلے مصرع میں جب بھی لانا چاہتا ہوں۔

جو میں نے شعر درج کیا ہے اس میں آٹھ بار فعلن آتا ہے۔ عروض سائٹ پر تقطیع کر کے بھی دیکھ چکا ہوں۔
 

مقبول

محفلین
جو میں نے شعر درج کیا ہے اس میں آٹھ بار فعلن آتا ہے۔ عروض سائٹ پر تقطیع کر کے بھی دیکھ چکا ہوں۔
جی، سات بارفعْلن اور ایک بار فَعِلن آتا ہے۔ اگر فَعِلن کو فعْلن کا متبادل سمجھ لیا جائے تو پھر اسے آٹھ بار فعْلن کہہ سکتے ہیں
 
Top