برائے اصلاح: ہم صفتِ خداوندی بھی خوب نبھاتے ہیں

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:


ہم صفتِ خداوندی بھی خوب نبھاتے ہیں
ہر سال محمد کا میلاد مناتے ہیں

آتے ہیں فرشتے اور پلکوں کو بچھاتے ہیں
جب ںعت محمد کی محفل میں سناتے ہیں

رب عرش پہ آقا کا میلاد مناتا ہے
ہم فرش پہ آقا کا میلاد مناتے ہیں

سرکار کی الفت سے ہوتا ہے لبالب دل
جب گنبدِ خضریٰ کو آنکھوں میں سماتے ہیں

مڑ جائے قمر جس کی انگلی کے اشارے پر
اس نورِ مجسم کا میلاد مناتے ہیں

آتی ہے ہمیں خوشبو جنت کے گلستاں سے
جب آپ کا ہونٹوں پر ہم نام لے آتے ہیں

لب تشنہ نہیں رہتے دل تشنہ نہیں رہتے
جب جام نگاہوں سے وہ ہم کو پلاتے ہیں

سب زخم رفو میثم ہو جائیں مرے دل کے
جب خاک مدینے کی سینے سے لگاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ہم صفتِ خداوندی بھی خوب نبھاتے ہیں
ہر سال محمد کا میلاد مناتے ہیں
... صفت میں ف مفتوح، زبر کے ساتھ ہے
اس کے علاوہ یہ بحر دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے، ہر حصے میں بات مکمل ہونی چاہیے

آتے ہیں فرشتے اور پلکوں کو بچھاتے ہیں
جب ںعت محمد کی محفل میں سناتے ہیں
... اور کی واو کا اسقاط غلط ہے
دوسرا مصرع بھی
ہم نعتِ محمد جب محفل.... بہتر ہو گا

رب عرش پہ آقا کا میلاد مناتا ہے
ہم فرش پہ آقا کا میلاد مناتے ہیں
.. درست

سرکار کی الفت سے ہوتا ہے لبالب دل
جب گنبدِ خضریٰ کو آنکھوں میں سماتے ہیں
... کون سماتے ہیں؟ فاعل واضح کرو۔ لبالب کی جگہ لبریز کہا جائے

مڑ جائے قمر جس کی انگلی کے اشارے پر
اس نورِ مجسم کا میلاد مناتے ہیں
.. مڑ جائے؟ یا پھٹ جائے ۔ شق القمر کے لئے مڑنا تو غلط ہی یو گا
فاعل اس میں بھی موجود نہیں

آتی ہے ہمیں خوشبو جنت کے گلستاں سے
جب آپ کا ہونٹوں پر ہم نام لے آتے ہیں
.. لے کی ے کا اسقاط درست نہیں

لب تشنہ نہیں رہتے دل تشنہ نہیں رہتے
جب جام نگاہوں سے وہ ہم کو پلاتے ہیں
.. درست

سب زخم رفو میثم ہو جائیں مرے دل کے
جب خاک مدینے کی سینے سے لگاتے ہیں
.. پہلے مصرع میں بھی ہوتے ہیں کا صیغہ استعمال کیا جائے، الفاظ بدل کر
دوسرے مصرعے میں بھی فاعل ہم کا اضافہ بہتر ہے
جب خاکِ مدینہ ہم....
 
ہم صفتِ خداوندی بھی خوب نبھاتے ہیں
خدا کی صفات کوئی کیسے ’’نبھا‘‘ سکتا ہے؟؟؟ مذہبی نکتہ نظر سے مجھے یہ بات درست نہیں لگتی، واللہ اعلم۔
میرے خیال میں تنازع سے بچنے کے لیے پہلا مصرع بدل لیں۔
 

یاسر علی

محفلین

یاسر علی

محفلین
الف عین


تب آکے ملک اپنی پلکوں کو بچھاتے ہیں
ہم نعتِ محمد جب محفل میں سناتے ہیں

دل آپ کی الفت سے لبریز ہمارے ہوں
جب گنبدِ خضریٰ کو آنکھوں میں سماتے ہیں

آتی ہے ہمیں خوشبو جنت کے گلستاں سے
جب نام لبوں پر ہم لے آپ کا آتے ہیں

ہوتے ہیں رفو میثم سب زخم دلوں کے تب
ہم خاکِ مدینہ جب سینے سے لگاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
مجھے چاروں اشعار پسند نہیں آئے!
مطلع میں پلکیں بچھانا کسی کے استقبال کے لئے ہوتا ہے، یاسر میاں کے نعت سنانے سے نہیں، ہاں، اگر یاسر اتنے خاص الخاص ہیں کہ جب وہ نعت سنانے تشریف لائیں تو یاسر میاں کے استقبال کے لئے فرشتے پلکیں بچھائیں!
دوسرے تیسرے اشعار مجہول ہیں
مقطع 'تب' کی نشست کی وجہ سے رواں نہیں
 
Top