برائے اصلاح- ہیں سبھی مجھ سے خفا اب مرے غم خوار سمیت

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین ، یاسر شاہ

ہیں سبھی مجھ سے خفا اب مرے غم خوار سمیت
اب کے مشکل ہے سلامت رہوں دستار سمیت

اک تو پہلے بھی رہِ زیست نہ آساں تھی مجھے
اُس پہ چلنا بھی پڑا ہے دلِ بیمار سمیت

باغباں خوش کہ تھما شورِ فغاں آخر تو
بلبلیں راکھ ہوئیں اپنے چمن زار سمیت

دل مرا ایسا بجھا تیرے تغافل کے سبب
یا
یوں مرے دل کو بجھا ڈالا تغافل نے ترے
خواہشِ وصل گئی ہجر کے آزار سمیت

مجھ کو سولی پہ چڑھا کر مرے دشمن یہ بتا
کیا مجھے مار سکے گا مرے افکار سمیت ؟

اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ ہے کھٹکا کوئی
اب مقابل ہیں مرے، یار بھی اغیار سمیت​
 

شکیب

محفلین
باغباں خوش کہ تھما شورِ فغاں آخر تو
"آخر کو" یا "آخرِ کار" کر دیں۔
دل مرا ایسا بجھا تیرے تغافل کے سبب
یا
یوں مرے دل کو بجھا ڈالا تغافل نے ترے
خواہشِ وصل گئی ہجر کے آزار سمیت
اول متبادل ہی بہتر ہے۔ بہت اچھا شعر۔

مجھے تو پوری غزل بڑی پسند آئی عبد الرؤف صاحب۔ بہت خوب!

چند تجاویز تھیں جو دے دیں، باقی استاد محترم اعجاز عبید صاحب کا انتظار کریں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
"آخر کو" یا "آخرِ کار" کر دیں۔

اول متبادل ہی بہتر ہے۔ بہت اچھا شعر۔

مجھے تو پوری غزل بڑی پسند آئی عبد الرؤف صاحب۔ بہت خوب!

چند تجاویز تھیں جو دے دیں، باقی استاد محترم اعجاز عبید صاحب کا انتظار کریں۔
بہت شکریہ محترم، سلامت رہیں
 

اکمل زیدی

محفلین
ماشاءاللہ ۔۔بہت عمدہ بھیا۔۔۔کوئی مقطع وغیرہ کے لیے نام سوچ لیں۔۔۔اگر میں آخری شعر کو یوں کر دوں تو آپ کیا کر لیں گے ۔۔۔۔
اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ ہے کھٹکااکمل
اب مقابل ہیں مرے، یار بھی اغیار سمیت
دیکھا کیسا فِٹ بیٹھا ۔۔ کوئی بھی ۔۔فعولن ۔۔ہے اور اکمل فعولن ہے ۔۔:battingeyelashes:
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ماشاءاللہ ۔۔بہت عمدہ بھیا۔۔۔کوئی مقطع وغیرہ کے لیے نام سوچ لیں۔۔۔اگر میں آخری شعر کو یوں کر دوں تو آپ کیا کر لیں گے ۔۔۔۔
اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ ہے کھٹکااکمل
اب مقابل ہیں مرے، یار بھی اغیار سمیت
:battingeyelashes:
حوصلہ افزائی کے لیے بے حد شکریہ، جی ہاں آپ بالکل آخری شعر کو ایسے ہی پڑھیں 🙂
 

اکمل زیدی

محفلین
حوصلہ افزائی کے لیے بے حد شکریہ، جی ہاں آپ بالکل آخری شعر کو ایسے ہی پڑھیں 🙂
ویسے آپس کی بات ہے اکمل کو اگر آپ معنی کے طور پر لیں تو بھی پُرمعنی بلکہ معنی خیز ہو جاتا ہے ۔۔۔ مطلب بالکل کھٹکا نہیں ہے ۔۔۔ تو آپ بھی اسے ایسے ہی کر سکتے ہیں۔۔ باقی مرضی ہے آپ کی ۔۔۔ :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ویسے آپس کی بات ہے اکمل کو اگر آپ معنی کے طور پر لیں تو بھی پُرمعنی بلکہ معنی خیز ہو جاتا ہے ۔۔۔ مطلب بالکل کھٹکا نہیں ہے ۔۔۔ تو آپ بھی اسے ایسے ہی کر سکتے ہیں۔۔ باقی مرضی ہے آپ کی ۔۔۔ :)
جی ہاں اکمل بہت مطلبی ہے۔ یعنی کہ اکمل لفظ اچھے مطالب و مفاہیم دینے والا لفظ ہے۔ 😂
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
عزیزم شکیب کی دونوں تجاویز خوب ہیں
اک تو پہلے بھی رہِ زیست نہ آساں تھی مجھے
اُس پہ چلنا بھی پڑا ہے دلِ بیمار سمیت
پہلا مصرع رواں نہیں لگتا اگریوں کہیں تو؟
... نہیں تھی آسان
مجھے کے بغیر بھی تفہیم تو ہو جاتی ہے میرے خیال میں
باقی درست لگ رہے ہیں مجھے اشعار
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عزیزم شکیب کی دونوں تجاویز خوب ہیں

پہلا مصرع رواں نہیں لگتا اگریوں کہیں تو؟
... نہیں تھی آسان
مجھے کے بغیر بھی تفہیم تو ہو جاتی ہے میرے خیال میں
باقی درست لگ رہے ہیں مجھے اشعار
بہت بہتر، ایسے ہی کر لیتے ہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہیں سبھی مجھ سے خفا اب مرے غم خوار سمیت
اب کے مشکل ہے سلامت رہوں دستار سمیت

اک تو پہلے بھی رہِ زیست نہیں تھی آساں
اُس پہ چلنا بھی پڑا ہے دلِ بیمار سمیت

باغباں خوش کہ تھما شورِ فغاں آخرِ کار
بلبلیں راکھ ہوئیں اپنے چمن زار سمیت

دل مرا ایسا بجھا تیرے تغافل کے سبب
خواہشِ وصل گئی ہجر کے آزار سمیت

مجھ کو سولی پہ چڑھا کر مرے دشمن یہ بتا
کیا مجھے مار سکے گا مرے افکار سمیت ؟

اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ ہے کھٹکا کوئی
اب مقابل ہیں مرے، یار بھی اغیار سمیت
 

یاسر شاہ

محفلین
یہ غزل بھی خوب ہے۔
اک تو پہلے بھی رہِ زیست نہیں تھی آساں
اُس پہ چلنا بھی پڑا ہے دلِ بیمار سمیت
ابتدائی :اک تو: کھٹک رہا ہے۔ایسی کوئی صورت نکالیں:
پہلے بھی سہل نہ تھیں زیست کی راہیں مجھ پر
ان پہ چلنا بھی پڑا اب دل بیمار سمیت
اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ ہے کھٹکا کوئی
اب مقابل ہیں مرے، یار بھی اغیار سمیت
پہلے مصرع میں :خوف: اور: کھٹکا: میں تکرار محسوس ہوتی ہے۔اغیار اور یار وں کی رعایت سے یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے پہلے مصرع کی۔

اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ وفا کی امید
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت شکریہ
ابتدائی :اک تو: کھٹک رہا ہے۔ایسی کوئی صورت نکالیں:
پہلے بھی سہل نہ تھیں زیست کی راہیں مجھ پر
ان پہ چلنا بھی پڑا اب دل بیمار سمیت
اچھا ہے۔۔۔
لیکن اس کی نثر بنا کر بھی دیکھا تو مجھے درست محسوس ہو رہی تھی۔
کیا "اک تو" کو "کچھ تو" کیا جا سکتا ہے؟
پہلے مصرع میں :خوف: اور: کھٹکا: میں تکرار محسوس ہوتی ہے۔اغیار اور یار وں کی رعایت سے یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے پہلے مصرع کی۔

اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ وفا کی امید
یہاں پر جو میرا مطمع نظر تھا وہ بیان کر دیتا ہوں، پھر بتائیے گا کہ میرے الفاظ میرے مضمون کا حق ادا کر پا رہے ہیں یا نہیں۔
اب میرے یار بھی اغیار سمیت میرے مقابل آ گئے ہیں اب مجھے یہ خوف نہ رہا کہ کوئی میری پیٹھ پر وار کرے گا اور نہ ہی اس اندیشے کا شکار ہوں کہ میرے یار میری مدد کے لیے پہنچیں گے کہ نہیں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
اک تو پہلے بھی رہِ زیست نہیں تھی آساں
اُس پہ چلنا بھی پڑا ہے دلِ بیمار سمیت
اچھا ہے۔۔۔
لیکن اس کی نثر بنا کر بھی دیکھا تو مجھے درست محسوس ہو رہی تھی۔
خیال تو واضح ہے لہذا نثر کرنےکی ضرورت نہیں ۔ زبان و اسلوب کے حوالے سے کہا تھا کہ :اک تو : کی بجائے ذوق : ایک تو: کا تقاضا کرتا ہے۔پھر اس کے تقابل میں دوسرے مصرع میں :اس پہ پھر: یا :اوپر سے: ہونا چاہیے کہ صرف :اس پہ: سے میرا ذہن بھی: راہ : کی ضمیر کی طرف گیا کہ راہ پہ چلنا بھی پڑا دل بیمار کے ساتھ۔اس لیے تجویز دی۔
کچھ تو" کیا جا سکتا ہے؟
کر تو سکتے ہیں مگر جچے گا نہیں۔
اور نہ ہی اس اندیشے کا شکار ہوں کہ میرے یار میری مدد کے لیے پہنچیں گے کہ نہیں
اسی صورت حال کے لیے تو تجویز دی وفا کی امید والی ۔دیکھیں دو صورتیں ہیں ایک تو اندیشہ کہ دوست نہ آئے تو کیا ہوگا یہ صورت ؛خوف: میں بیان ہو گئی پھر یہ امید کہ شاید دوست آ جائیں یہ میری تجویز تھی کہ اب تو یہ امید بھی نہ رہی۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خیال تو واضح ہے لہذا نثر کرنےکی ضرورت نہیں ۔ زبان و اسلوب کے حوالے سے کہا تھا کہ :اک تو : کی بجائے ذوق : ایک تو: کا تقاضا کرتا ہے۔پھر اس کے تقابل میں دوسرے مصرع میں :اس پہ پھر: یا :اوپر سے: ہونا چاہیے کہ صرف :اس پہ: سے میرا ذہن بھی: راہ : کی ضمیر کی طرف گیا کہ راہ پہ چلنا بھی پڑا دل بیمار کے ساتھ۔اس لیے تجویز دی۔

کر تو سکتے ہیں مگر جچے گا نہیں۔

اسی صورت حال کے لیے تو تجویز دی وفا کی امید والی ۔دیکھیں دو صورتیں ہیں ایک تو اندیشہ کہ دوست نہ آئے تو کیا ہوگا یہ صورت ؛خوف: میں بیان ہو گئی پھر یہ امید کہ شاید دوست آ جائیں یہ میری تجویز تھی کہ اب تو یہ امید بھی نہ رہی۔
بہت بہتر، میں تبدیل کرتا ہوں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ابتدائی :اک تو: کھٹک رہا ہے۔ایسی کوئی صورت نکالیں:
پہلے بھی سہل نہ تھیں زیست کی راہیں مجھ پر
ان پہ چلنا بھی پڑا اب دل بیمار سمیت

پہلے مصرع میں :خوف: اور: کھٹکا: میں تکرار محسوس ہوتی ہے۔اغیار اور یار وں کی رعایت سے یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے پہلے مصرع کی۔

اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ وفا کی امید
کیا یہ اب اس طرح درست ہے؟

ایک تو سہل نہیں راہِ حیات اور اس پر
مجھ کو چلنا بھی پڑا ہے دلِ بیمار سمیت

اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ ہی امیدِ وفا
اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ وفا کی امید

ان میں سے کون سا مصرع رکھ لوں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ایک تو سہل نہیں راہِ حیات اور اس پر
مجھ کو چلنا بھی پڑا ہے دلِ بیمار سمیت
پہلے کے مقابلے میں بہتر ہو گئی۔لیکن مصرعے 1+1 کی بجائے 0.75+1.25 ناپ کے ہوگئے۔
اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ وفا کی امید
یہ ہی بہتر ہے ۔پہلے میرے ذہن میں بھی امید وفا ترکیب آئی تھی لیکن :کوئی خوف: کے ساتھ وفا کی امید جچتا ہے ۔باقی آپ کی مرضی ،غزل آپ کی صوابدید کی مرہون منت ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہیں سبھی مجھ سے خفا اب مرے غم خوار سمیت
اب کے مشکل ہے سلامت رہوں دستار سمیت

ایک تو سہل نہیں راہِ حیات اور اس پر
مجھ کو چلنا بھی پڑا ہے دلِ بیمار سمیت

باغباں خوش کہ تھما شورِ فغاں آخرِ کار
بلبلیں راکھ ہوئیں اپنے چمن زار سمیت

دل مرا ایسا بجھا تیرے تغافل کے سبب
خواہشِ وصل گئی ہجر کے آزار سمیت

مجھ کو سولی پہ چڑھا کر مرے دشمن یہ بتا
کیا مجھے مار سکے گا مرے افکار سمیت ؟

اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ وفا کی امید
اب مقابل ہیں مرے، یار بھی اغیار سمیت​
 

علی وقار

محفلین
ہیں سبھی مجھ سے خفا اب مرے غم خوار سمیت
اب کے مشکل ہے سلامت رہوں دستار سمیت

ایک تو سہل نہیں راہِ حیات اور اس پر
مجھ کو چلنا بھی پڑا ہے دلِ بیمار سمیت

باغباں خوش کہ تھما شورِ فغاں آخرِ کار
بلبلیں راکھ ہوئیں اپنے چمن زار سمیت

دل مرا ایسا بجھا تیرے تغافل کے سبب
خواہشِ وصل گئی ہجر کے آزار سمیت

مجھ کو سولی پہ چڑھا کر مرے دشمن یہ بتا
کیا مجھے مار سکے گا مرے افکار سمیت ؟

اب کوئی خوف ہے مجھ کو نہ وفا کی امید
اب مقابل ہیں مرے، یار بھی اغیار سمیت​
اب تک آپ کی جو غزلیں پڑھنے کو ملی ہیں، یہ غزل سب سے زیادہ پسند آئی ہے۔ بہت خوب۔
 
Top