برائے اصلاح : یارب نہ کوئی دیکھے ان کو بری نظر سے

انس معین

محفلین
غزل برائے اصلاح
الف عین عظیم

سج دھج کے آج صاحب نکلے ہیں اپنے گھر سے
یارب نہ کوئی دیکھے ان کو بری نظر سے

یہ وصل کی دعائیں کب جا اثر کریں گی
یہ تیر اس ہجرکا نکلے گا کب جگر سے

اس شہر میں کبھی تم یہ پوچھ کر تو دیکھو
کیا کیا ہوئے ہنگامے میری موت کی خبر سے

تیرے بعد اپنی شامیں ہم نے گزاریں کیسے
بس پوچھ چاندنی سے یا پوچھ تو قمر سے

خونِ جگر سے لت پت، اک خط ہمارا پا کر
کتنے ہی دکھ سے احمد لپٹا وہ نامہ بر سے
 

عظیم

محفلین
سج دھج کے آج صاحب نکلے ہیں اپنے گھر سے
یارب نہ کوئی دیکھے ان کو بری نظر سے
۔۔۔۔ ٹھیک

یہ وصل کی دعائیں کب جا اثر کریں گی
یہ تیر اس ہجرکا نکلے گا کب جگر سے
۔۔۔ 'کب جا' اچھا نہیں لگ رہا۔ 'کب جا کر' بہتر لگتا ہے، الفاظ بدل کر دیکھیں
دوسرے میں 'ہجر' کا تلفظ غلط ہو گیا ہے

اس شہر میں کبھی تم یہ پوچھ کر تو دیکھو
کیا کیا ہوئے ہنگامے میری موت کی خبر سے
۔۔۔۔ ہنگامے کا تلفظ بھی غلط ہے۔ یہ مفعولن ہو گا۔

تیرے بعد اپنی شامیں ہم نے گزاریں کیسے
بس پوچھ چاندنی سے یا پوچھ تو قمر سے
۔۔۔۔ پہلے کی تقطیع کیسے کر رہے ہیں؟ دوسرے میں 'بس' کی بہ نسبت بھی 'یا' بہتر لگ رہا ہے۔ یا 'یہ'.

خونِ جگر سے لت پت، اک خط ہمارا پا کر
کتنے ہی دکھ سے احمد لپٹا وہ نامہ بر سے
۔۔۔۔ درست
 

انس معین

محفلین
سر یہ مصرع ٹھیک رہے گا ۔

خونِ جگر سے لت پت، اک خط ہمارا پا کر
کتنے ہی دکھ سے احمد لپٹا وہ نامہ بر سے
--------
ان کو یہ کیا ہوا کہ لپٹے ہیں نامہ بر سے
 
Top