اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
آداب !
براہ مہربانی اس غزل کی اصلاح فرما دیں _
غزل
یہ مانتا ہوں کوئی سمندر نہیں ہوں میں
لیکن کسی ندی سے بھی کمتر نہیں ہوں میں
ہمدرد ہوں تِرا ، مجھے ایذا رساں نہ کہہ
نشتر ہوں دیکھ غور سے خنجر نہیں ہوں میں
مِلتا مجھے بھی لمس تِرے پاؤں کا مگر
صد حیف ! تیری راہ کا پتھر نہیں ہوں میں
یا
پاؤں کا لمس کیسے میسّر ہو پھر بھلا
جب اس کی رہگزر کا ہی پتھر نہیں ہوں میں
مجھ کو تمہاری روح سے بھی پیار ہے بہت
شیدا فقط تمہارے بدن پر نہیں ہوں میں
میں جام ہوں مگر کسی مخصوص ہاتھ کا
بدلے سدا جو دست ، وہ ساغر نہیں ہوں میں
جب سے نگاہ میں مجھے رکھنے لگا ہے وہ
بے گھر بھی ہو کے لگتا ہے ، بے گھر نہیں ہوں میں
مٹنے کے ڈر سے فریم میں رکھتا ہے وہ مجھے
وہ جانتا ہے حرفِ مکرّر نہیں ہوں میں
کافر مجھے نہ بول مِرے بھائی یہ ہے جرم
کیا جانتا نہیں ہے تو ، کافَر نہیں ہوں میں
یا
مومن ہوں تیرے جیسا ہی کافَر نہیں ہوں میں
نفرت ، اضافی حسن سے ہے اس حسین کو
صد شکر اے خدا کوئی زیور نہیں ہوں میں
ملنے کی چاہ بھی نہ رہی مجھ سے اب اسے
گھر میں وہ رہ کے کہتا ہے 'گھر پر نہیں ہوں میں'
یا
آتا نہیں وہ ملنے کبھی مجھ سے میرے گھر
جاتا ہوں میں تو کہتا ہے 'گھر پر نہیں ہوں میں'
خوش آمدید مجھ کو کہو بائے مت کہو
ہوں ماہ جنوری کا دسمبر نہیں ہوں میں
اشرف ! غزل یہ بحرِ مضارع میں ہے مِری
تقطیع کر کے دیکھ لے جھُٹلر نہیں ہوں میں
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
آداب !
براہ مہربانی اس غزل کی اصلاح فرما دیں _
غزل
یہ مانتا ہوں کوئی سمندر نہیں ہوں میں
لیکن کسی ندی سے بھی کمتر نہیں ہوں میں
ہمدرد ہوں تِرا ، مجھے ایذا رساں نہ کہہ
نشتر ہوں دیکھ غور سے خنجر نہیں ہوں میں
مِلتا مجھے بھی لمس تِرے پاؤں کا مگر
صد حیف ! تیری راہ کا پتھر نہیں ہوں میں
یا
پاؤں کا لمس کیسے میسّر ہو پھر بھلا
جب اس کی رہگزر کا ہی پتھر نہیں ہوں میں
مجھ کو تمہاری روح سے بھی پیار ہے بہت
شیدا فقط تمہارے بدن پر نہیں ہوں میں
میں جام ہوں مگر کسی مخصوص ہاتھ کا
بدلے سدا جو دست ، وہ ساغر نہیں ہوں میں
جب سے نگاہ میں مجھے رکھنے لگا ہے وہ
بے گھر بھی ہو کے لگتا ہے ، بے گھر نہیں ہوں میں
مٹنے کے ڈر سے فریم میں رکھتا ہے وہ مجھے
وہ جانتا ہے حرفِ مکرّر نہیں ہوں میں
کافر مجھے نہ بول مِرے بھائی یہ ہے جرم
کیا جانتا نہیں ہے تو ، کافَر نہیں ہوں میں
یا
مومن ہوں تیرے جیسا ہی کافَر نہیں ہوں میں
نفرت ، اضافی حسن سے ہے اس حسین کو
صد شکر اے خدا کوئی زیور نہیں ہوں میں
ملنے کی چاہ بھی نہ رہی مجھ سے اب اسے
گھر میں وہ رہ کے کہتا ہے 'گھر پر نہیں ہوں میں'
یا
آتا نہیں وہ ملنے کبھی مجھ سے میرے گھر
جاتا ہوں میں تو کہتا ہے 'گھر پر نہیں ہوں میں'
خوش آمدید مجھ کو کہو بائے مت کہو
ہوں ماہ جنوری کا دسمبر نہیں ہوں میں
اشرف ! غزل یہ بحرِ مضارع میں ہے مِری
تقطیع کر کے دیکھ لے جھُٹلر نہیں ہوں میں