برائے اصلاح ۔۔۔

ام اویس

محفلین
کرتے رہنا کام تھا اب کچھ نہ کرنا کام ہے
کام سارے چھوڑ کر اب بیٹھ رہنا عام ہے

سیڑھیوں میں بیٹھ کر ہنسنا تھا اک دیوانگی
اب اکیلے بیٹھ کر قہقے لگانا عام ہے

زور سے تنہا جو بولیں مجنوں تھے پچھلے دنوں
اب سڑک پر خود سے ہی گپ شپ لڑانا عام ہے

سر جھکائے فکر میں بیٹھے ہیں سارے فلسفی
رادھا ہیں اب انگلیاں اور تیل بھی اب عام ہے

ہاتھ میں موبائل ہے تو میر جعفر ہیں بڑے
سازشیں جھگڑے لڑائی بیٹھے بیٹھے عام ہے

گر عیادت نہ کرو تو روٹھ جاتے تھے سبھی
اب ٹکا ٹک ٹھیک ہوں لکھ کر بتانا عام ہے

پاس بیٹھے دیر تک خالہ سے باتیں تھیں کبھی
اب تو بس نظریں اٹھا کر ٹھیک کہنا عام ہے

پاس بیٹھے سر اٹھائے منتظر ہیں بول کے
اقربا کو چھوڑ کر غیروں سے گپ شپ عام ہے

چھوڑ تو فکریں سبھی واعظ نہ بن کچھ خاص کر
سب سے نزہت بات کر نہ بولنا گو عام ہے
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھے خیالات ہیں۔ بحر و اوزان بھی دو چار اغلاط کو چھوڑ کر درست ہیں۔ بس قافیہ عنقا ہے۔ذرا اس پر غور کر کے دیکھیں، میں سمجھتا ہوں کہ خود ہی اپنی اہم غلطی سمجھ میں آ جائے گی۔ اہم بات جس سے خوشی ہوئی وہ یہ کہ طبیعت میں موزونی ہے ماشاء اللہ
 
Top