برائے اصلاح ۔ اب جو لے کر پگار اٹھتا ہے

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، سید عاطف علی

صابرہ بہنا کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی جون ایلیا صاحب کی زمین کو تختہِ مشق بنا لیا😊۔ دیکھیے یہ مشق کتنا کامیاب ہو سکی۔

اب جو لے کر پگار اٹھتا ہے
سب دکاں کا ادھار اٹھتا ہے

ہر قدم ہوتا ہے منوں بھاری
جب بھی سوئے بزار اٹھتا ہے

جو بھی سنتا ہے نرخ چیزوں کے
توبہ توبہ پکار اٹھتا ہے

خرچ اٹھتا تھا جس پہ سو دو سو
اب اُسی پر ہزار اٹھتا ہے

آئے بجلی کے بل محلے میں
نوحہ چرخِ چہار اٹھتا ہے

حسرتیں اب یوں دل سے اٹھتی ہیں
جیسے کوئی غبار اٹھتا ہے
 

صابرہ امین

لائبریرین
الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، سید عاطف علی

صابرہ بہنا کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی جون ایلیا صاحب کی زمین کو تختہِ مشق بنا لیا😊۔ دیکھیے یہ مشق کتنا کامیاب ہو سکی۔

اب جو لے کر پگار اٹھتا ہے
سب دکاں کا ادھار اٹھتا ہے

ہر قدم ہوتا ہے منوں بھاری
جب بھی سوئے بزار اٹھتا ہے

جو بھی سنتا ہے نرخ چیزوں کے
توبہ توبہ پکار اٹھتا ہے

خرچ اٹھتا تھا جس پہ سو دو سو
اب اُسی پر ہزار اٹھتا ہے

آئے بجلی کے بل محلے میں
نوحہ چرخِ چہار اٹھتا ہے

حسرتیں اب یوں دل سے اٹھتی ہیں
جیسے کوئی غبار اٹھتا ہے
ہاہاہا ۔ ۔ زبردست ۔ ۔ مزیدار

خرچ اٹھتا تھا جس پہ سو دو سو
اب اُسی پر ہزار اٹھتا ہے

بہت اچھے ۔ ۔ :rollingonthefloor: :rollingonthefloor: :rollingonthefloor:
 

الف عین

لائبریرین
پگار لفظ کچھ عامیانہ لگتا ہے
بزار تو بہر حال غلط ہی کہا جائے گا
چرخ چہار اٹھنا بھی محاورہ نہیں۔
باقی تین اشعار درست ہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پگار لفظ کچھ عامیانہ لگتا ہے
اس کا متبادل بہت تلاش کے بعد بھی اس قافیے میں نہیں مل سکا۔ اس لیے استعمال کر لیا۔
بزار تو بہر حال غلط ہی کہا جائے گا
"بزار" بازار کی تصغیر کے طور ریختہ کی ویب سائٹ پر سرچ کیا تو اس لفظ کو مستعمل پایا۔ اب یہ مجھے علم میں نہیں کہ یہ متروک ہے یا "غلط العام"
چرخ چہار اٹھنا بھی محاورہ نہیں۔
اس شعر میں نوحے کا اٹھنا ہے چرخِ چہار تک۔ شاید عجزِ بیان کی وجہ سے مافی الضمیر بیان نہیں ہو پایا ہو گا۔

استادِ محترم! براہ کرم، اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں۔
 

الف عین

لائبریرین
بزار لفظ کوغلط العام کہہ سکتے ہیں
چرخ چہار تک اٹھنا تو درست ہے، لیکن 'تک' کے بغیر درست نہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
سرخ روشنائی والے اشعار ترمیم شدہ ہیں۔

اب جو لے کر پگار اٹھتا ہے
سب دکاں کا ادھار اٹھتا ہے

سوئے بازار اب جو اٹھے کبھی
ہر قدم ناگوار اٹھتا ہے


جو بھی سنتا ہے نرخ چیزوں کے
توبہ توبہ پکار اٹھتا ہے

خرچ اٹھتا تھا جس پہ سو دو سو
اب اُسی پر ہزار اٹھتا ہے

دیکھوں بجلی کے بل تو اک نوحہ
تابہ چرخِ چہار اٹھتا ہے


حسرتیں اب یوں دل سے اٹھتی ہیں
جیسے کوئی غبار اٹھتا ہے
 
آخری تدوین:
Top