برائے اصلاح ۔ فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن

میری ہستی جو نوحہ کناں ہوگئی
آنسوؤں سے کہانی بیاں ہوگئی

ذرے ذرے میں جب اسکو پایا تو پھر
مجھ پہ اپنی حقیقت عیاں ہوگئی

جو دعا میں نے بھیجی تھی اپنے لیے
وہ کہیں زینتِ کہکشاں ہوگئی

اپنے غم کو چپھایا ہے کچھ اس طرح
صرف قدرت مری رازداں ہوگئی

لاتی تھی جو کبھی سب تری پرچیاں
اب سنا ہے وہ لڑکی جواں ہوگئی

وہ بھی خوش ہو گیا مجھ پہ کرکے ستم
کچھ مری شاعری بھی رواں ہوگئی

آج پھر جو کسی کا لہو ہے بہا
آج پھر یہ فضا ارغواں ہو گئی

ہم پہ کرکے ستم جب بھی کی معذرت
تو گھڑی لمحہء امتحاں ہوگئی ( اس مصرع کے بحر میں ہونے پہ شک سا ہے)

مان جتنا بھی منصور کو تھا کبھی
اب تو ہر سانس اُس کی فُغاں ہوگئی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
شاعری رواں ہو گئی؟؟ روانی تو ضرور ہے اشعار میں۔ لیکن پھر بھی الفاظ کی الٹ پھیر سے بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
جیسے
ذرے ذرے میں جب اسکو پایا تو پھر
مجھ پہ اپنی حقیقت عیاں ہوگئی
اگر پہلا مصرع یوں ہو
ذرے ذرے میں پایا جو میں نے اسے
مجھ پہ اپنی حقیقت عیاں ہوگئی
جب، تو، پھر تین الفاظ کا استعمال اس بیانیے کو گنجلک بنا رہا ہے۔
دوسرے مصرع کو بھی خود ہی غور کر کے دیکھیں کہ ’مجھ پہ ‘بہتر ہو گا یا ’مجھ پر‘

جو دعا میں نے بھیجی تھی اپنے لیے
وہ کہیں زینتِ کہکشاں ہوگئی
÷÷مفہوم سمجھ میں نہیں آ سکا۔ کہکشاں سے تعلق؟

لاتی تھی جو کبھی سب تری پرچیاں
اب سنا ہے وہ لڑکی جواں ہوگئی
÷÷ پہلا مصرع مزید روانی کا طلبگار ہے

وہ بھی خوش ہو گیا مجھ پہ کرکے ستم
کچھ مری شاعری بھی رواں ہوگئی
÷÷ ربط کیا ہوا اس کے ستم اور شاعری کا۔ شاعری نہیں، غزل یا اشعار رواں ہو سکتئ ہیں۔
آج پھر جو کسی کا لہو ہے بہا
آج پھر یہ فضا ارغواں ہو گئی
÷÷پہلا مصرع روانی طلب ہے

ہم پہ کرکے ستم جب بھی کی معذرت
تو گھڑی لمحہء امتحاں ہوگئی ( اس مصرع کے بحر میں ہونے پہ شک سا ہے)
÷÷÷ بحر میں درست ہے، لیکن مفہوم کے لحاظ سے دو لختی محسوس ہو رہی ہے۔ ’تو‘ کا طویل کھنچنا بھی اچھا نہیں لگ رہا

مان جتنا بھی منصور کو تھا کبھی
اب تو ہر سانس اُس کی فُغاں ہوگئی
یہ بھی دو لخت ہی لگتا ہے
 
ذرے ذرے میں پایا جو میں نے اسے
متفق - بہت اچھا ہوگیا

جو دعا میں نے بھیجی تھی اپنے لیے
وہ کہیں زینتِ کہکشاں ہوگئی
÷÷مفہوم سمجھ میں نہیں آ سکا۔ کہکشاں سے تعلق؟

یعنی دعا اٹک گئی ہے آسماں پہ جاکر - کچھ ہو نہیں رہا اس دعا کا

لاتی تھی جو کبھی سب تری پرچیاں
اب سنا ہے وہ لڑکی جواں ہوگئی
÷÷ پہلا مصرع مزید روانی کا طلبگار ہے

اس طرح کریں پہلے مصرع کو تو:

جو مجھے پرچیاں دیتی تھی سب تری

وہ بھی خوش ہو گیا مجھ پہ کرکے ستم
کچھ مری شاعری بھی رواں ہوگئی
÷÷ ربط کیا ہوا اس کے ستم اور شاعری کا۔ شاعری نہیں، غزل یا اشعار رواں ہو سکتئ ہیں۔

سر - دکھ اور غم میں شاعری بہتر ہوجاتی ہے (یہی سنا تھا) - لیکن اب آپ نے کہہ دیا کہ شاعری رواں ہو ہی نہیں سکتی تو پتہ نہیں کیا کروں اسکا :unsure:

ج پھر جو کسی کا لہو ہے بہا
آج پھر یہ فضا ارغواں ہو گئی
÷÷پہلا مصرع روانی طلب ہے

آج پھر سے کسی کا لہو ہے بہا
آج پھر یہ فضا ارغواں ہو گئی
ہم پہ کرکے ستم جب بھی کی معذرت
تو گھڑی لمحہء امتحاں ہوگئی ( اس مصرع کے بحر میں ہونے پہ شک سا ہے)
÷÷÷ بحر میں درست ہے، لیکن مفہوم کے لحاظ سے دو لختی محسوس ہو رہی ہے۔ ’تو‘ کا طویل کھنچنا بھی اچھا نہیں لگ رہا

سب ستم کرکے جب معذرت اس نے کی
وہ گھڑی لمحہء امتحاں ہوگئی

ان جتنا بھی منصور کو تھا کبھی
اب تو ہر سانس اُس کی فُغاں ہوگئی
یہ بھی دو لخت ہی لگتا ہے

دیتا پھرتا تھا منصور سب کو کھبی
اب تو ہر سانس اُس کی فُغاں ہوگئی
 

الف عین

لائبریرین
متفق - بہت اچھا ہوگیا

یعنی دعا اٹک گئی ہے آسماں پہ جاکر - کچھ ہو نہیں رہا اس دعا کا
÷÷÷ مگر جب کہکشاں کی زینت بن گئی کہا جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سے آرائش پیدا ہوئی ہے، نہ کہ غلطی سے اٹک گئی ہے!!

اس طرح کریں پہلے مصرع کو تو:

جو مجھے پرچیاں دیتی تھی سب تری
÷÷÷ جس نے دی تھیں مجھے پرچیاں سب تری
کیسا رہے گا؟


سر - دکھ اور غم میں شاعری بہتر ہوجاتی ہے (یہی سنا تھا) - لیکن اب آپ نے کہہ دیا کہ شاعری رواں ہو ہی نہیں سکتی تو پتہ نہیں کیا کروں اسکا :unsure:
÷÷÷جو جی میں آئے، شہد لگا کر چاٹو۔ شاعری کا رواں ہونا محاورہ نہیں۔ کم از کم میرا یہ خیال ہے۔ اور لوگوں کا کیا کہنا ہے؟

آج پھر سے کسی کا لہو ہے بہا
آج پھر یہ فضا ارغواں ہو گئی
÷÷÷ آج پھر سے بہا ہے کسی کا لہو
ٹھیک رہے گا؟ حالانکہ ’سے‘ سے میں مطمئن نہیں ہوں۔ یہ بھی بھرتی کا ہے۔

سب ستم کرکے جب معذرت اس نے کی
وہ گھڑی لمحہء امتحاں ہوگئی
÷÷÷ٹھیک ہے


دیتا پھرتا تھا منصور سب کو کھبی
اب تو ہر سانس اُس کی فُغاں ہوگئی
÷÷÷کیا دیتا پھرتا تھا؟ یہ واضح نہیں
اصل اقتباس میں ہی میرے کمنٹس موجود ہیں’÷÷÷ کے بعد
 
÷÷÷جو جی میں آئے، شہد لگا کر چاٹو۔ شاعری کا رواں ہونا محاورہ نہیں۔ کم از کم میرا یہ خیال ہے۔ اور لوگوں کا کیا کہنا ہے؟

ارے سر - آپ خفا ہوگئے- میں نے محض اپنے شعر ردی ہونے پر ماتم کیا تھا - اگر کوئی گستاخی ہوگئی ہو تو نادانی سمجھ کر معاف کردیں - آپ کی دل آزاری ذرا بھی مقصود نہ تھی -
 
خفا نہیں۔ بس تمہاری بات پر جملہ بازی کا خیال آیا!!
جناب محترم الف عین صاحب بنا کسی بناوٹ کے عرض کرتا ہوں، آپ کی ڈانٹ میں جو چاشنی ہے خدا کی قسم ایک عرصہ ہو گیا اس کو سنے۔ جیسے صاف اور واضح الفاظ میں آپ اپنی رائے بیان کرتے ہیں ایسے الفاظ کو سننے کو کان ترستے ہیں اب اس بناوٹی دنیا میں۔ سکول کے دور میں کچھ اساتذہ اکرام ایسے ہی ڈانٹ پلایا کرتے تھے، ڈر تو لگتا تھا ان سے لیکن زیادہ خوف اس بات کا ہوتا تھا کہ ناراض ہو کر ڈانٹنا ہے بند نہ کر دیں۔ اسی خدشے کا اظہار جناب منصور محبوب چوہدری صاحب نے کیا ہے۔
آپ اظہار بھلے ہی جملہ بازی سے کیجیے بس یونہی شفقت فرماتے رہیے کیونکہ یہ لہجے اب خال خال ہے میسر ہیں اور میسر بھی قسمت والوں کو ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک آئیڈیا ہے اشعار کہنے والوں کے لیے۔
کلاسیکی اساتذہ کا کلام خوب پڑھیں (میر ،درد،سودا (اور مؑآصڑ وغیرہ ))۔ زبان و بیان اور شعری اسلوب کی پختگی کا اندازہ ہونے سے بہت سے پہلو ازخود سدھر جاتے ہیں۔غالب اقبال وغیرہ بھی ۔
کم از کم جگر ،اصغر ،فانی اور حسرت وغیرہ کو تو ضرور پڑحیں کہ جدید لب و لہجہ ان سے بھی بہتر ہوگا اور یہ کہ انہیں پڑھنا قدرے سہل بھی ہے۔
یاد رہے کہ میرا یہ مشورہ حوصلہ افزائی کے لیے ہے حوصلہ شکنی کے لیے نہیں۔ :)
 
یک آئیڈیا ہے اشعار کہنے والوں کے لیے۔
کلاسیکی اساتذہ کا کلام خوب پڑھیں (میر ،درد،سودا (اور مؑآصڑ وغیرہ ))۔ زبان و بیان اور شعری اسلوب کی پختگی کا اندازہ ہونے سے بہت سے پہلو ازخود سدھر جاتے ہیں۔غالب اقبال وغیرہ بھی ۔
کم از کم جگر ،اصغر ،فانی اور حسرت وغیرہ کو تو ضرور پڑحیں کہ جدید لب و لہجہ ان سے بھی بہتر ہوگا اور یہ کہ انہیں پڑھنا قدرے سہل بھی ہے۔
یاد رہے کہ میرا یہ مشورہ حوصلہ افزائی کے لیے ہے حوصلہ شکنی کے لیے نہیں۔

ضرور سر - ‎شکر ہے آپ نے بھی کچھ کہا - اب تو یقیں ہوچلا تھا کہ آپ کو بھی میں نے خفا کر دیا ہے-
 

سید عاطف علی

لائبریرین
خاص تو تب ہوتے جب آپ ساتھ میں وغیرہ نہ لکھتے۔
اب آپ نے پھر ذرا لللکھ کر پہاڑ کو رائی بنا دیا ہے۔
بھئی ان حضرات کے ساتھ ساتھ یہ "ذرا" بھی کوئی عام ذرا نہیں یہ بھی ذرا خاص تھا ۔ :)
ویسے اطلاعاََ عرض ہے کہ ان میں سے مؤخر الذکر راقم کے والد محترم کے پردادا لگتے ہیں ۔ (تلمذ کے اعتبار سے) ۔ :)
 
Top