محترم استاد@الف عین صاحب
امجد علی راجا صاحب
ریحان قریشی صاحب


جو بھی میرے زخمء جگر دیکھتے ہیں
وہ جا جا کے ان کی نظر دیکھتے ہیں

نکلتے ہیں وہ شہر میں بن سنور کے
یہ ہم معجزہء ہنر دیکھتے ہیں

ہماری محبت کی ہے یہ کرامت
ہمیں رشک سے تاجور دیکھتے ہیں

نہ ہو بد گماں یوں نظر پھیرنے سے
تجھے دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں

سفر شرط ہے پر ذرا سوچ عابد
سفر سے قبل ہم سفر دیکھتے ہیں
 
جو بھی میرے زخمء جگر دیکھتے ہیں
وہ جا جا کے ان کی نظر دیکھتے ہیں
واہ بہت خوب۔ اچھا مطلع ہے۔
خیال بہت اچھا ہے لیکن بیانیہ بہتری کا متقاضی ہے۔
غزل کا آغاز "
جو" مختصر اور "بھی" طویل آواز کے ساتھ بھلا نہیں لگ رہا۔ (یہ میری زاتی رائے ہے تکنیکی خرابی نہیں)
;) پہلے مصرعے میں حیرانگی والی بات کریں۔ لوگ جا جا کے ان کی نظر دیکھتے ہیں تو ان کی نظر کے وار بھی تو اتنے انوکھے یا شدید ہونے چاہیئیں نا
مثلاً : مرا جو بھی چھلنی جگر دیکھتے ہیں
زخمِ جگر میں اتنی شدت کا اظہار نہیں ہوتا جتنی جگر کے چھلنی ہونے سے ہوتا ہے

نکلتے ہیں وہ شہر میں بن سنور کے
یہ ہم معجزہء ہنر دیکھتے ہیں
شہر میں بن سنور کے نکلنے میں کوئی معجزاتی بات نظر تو نہیں آتی بظاہر۔
(البتہ بیوٹی پارلر کا معجزہ ہو سکتا ہے ;))
کوئی اور بات کرں جس میں حیرانگی ہو، کوئی غیرمعمولی بات ہو جیسے:

وہ صحرا سے گزریں تو مہکیں بہاریں
انہیں ڈھونڈتی پھر رہی ہیں بہاریں
صبا ہے ہمیشہ تعاقب میں ان کے
اُڑیں تتلیاں ان کا دیدار کرنے


ہماری محبت کی ہے یہ کرامت
ہمیں رشک سے تاجور دیکھتے ہیں
ذکر تاجوروں کا ہے تو آپ کے سر پر کوئی ایسی چیز ہونی چاہیئے جو ان سب کے تاجوں سے زیادہ بیش قیمت ہو۔ بطور نمومہ شعر پیش کر رہا ہوں، آپ مزید بہتری کی کوشش کریں۔
ہے سہرہ وفا کا مرے سر کی رونق
مجھے رشک سے تاجور دیکھتے ہیں

اگر نعتیہ انداز میں کہنا چاہیں تو
مرے سر کی زینت ہیں نعلین ان کے
مجھے رشک سے تاجور دیکھتے ہیں


نہ ہو بد گماں یوں نظر پھیرنے سے
تجھے دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں
عمدہ خیال ہے
لیکن "نظر پھیرنا" چونکہ محاورہ ہے اور یہاں اس محاورہ کا محل مجھے نہیں لگ رہا۔ استادِ محترم الف عین کی رہنمائی ضروری ہے


سفر شرط ہے پر ذرا سوچ عابد
سفر سے قبل ہم سفر دیکھتے ہیں
قبل کا تلفظ درست نہیں (قب+ل ہوتا ہے ق+بل نہیں)۔
پہلا مصرعہ بہتری چاہتا ہے۔ اگر اس شعر کا مطلب وہی ہے جو میں سمجھ رہا ہوں تو پھر اس شعر کو کچھ یوں ہونا چاہیئے

سفر زندگی کا ہے دشوار عابد
چلو پھر کوئی ہمسفر دیھتے ہیں

یا
اکیلے کٹے گا سفر کیسے عابد
سو پہلے کوئی ہمسفر دیکھتے ہیں


میرا کہا حتمی نہیں ہے۔ دونوں اساتذہ کی رائے بھی ضروری ہے۔
سلامت رہیں، محنت جاری رکھیں۔ آپ اچھے شاعر ہیں۔
 
جو بھی میرے زخمء جگر دیکھتے ہیں
وہ جا جا کے ان کی نظر دیکھتے ہیں
واہ بہت خوب۔ اچھا مطلع ہے۔
خیال بہت اچھا ہے لیکن بیانیہ بہتری کا متقاضی ہے۔
غزل کا آغاز "
جو" مختصر اور "بھی" طویل آواز کے ساتھ بھلا نہیں لگ رہا۔ (یہ میری زاتی رائے ہے تکنیکی خرابی نہیں)
;) پہلے مصرعے میں حیرانگی والی بات کریں۔ لوگ جا جا کے ان کی نظر دیکھتے ہیں تو ان کی نظر کے وار بھی تو اتنے انوکھے یا شدید ہونے چاہیئیں نا
مثلاً : مرا جو بھی چھلنی جگر دیکھتے ہیں
زخمِ جگر میں اتنی شدت کا اظہار نہیں ہوتا جتنی جگر کے چھلنی ہونے سے ہوتا ہے

نکلتے ہیں وہ شہر میں بن سنور کے
یہ ہم معجزہء ہنر دیکھتے ہیں
شہر میں بن سنور کے نکلنے میں کوئی معجزاتی بات نظر تو نہیں آتی بظاہر۔
(البتہ بیوٹی پارلر کا معجزہ ہو سکتا ہے ;))
کوئی اور بات کرں جس میں حیرانگی ہو، کوئی غیرمعمولی بات ہو جیسے:

وہ صحرا سے گزریں تو مہکیں بہاریں
انہیں ڈھونڈتی پھر رہی ہیں بہاریں
صبا ہے ہمیشہ تعاقب میں ان کے
اُڑیں تتلیاں ان کا دیدار کرنے


ہماری محبت کی ہے یہ کرامت
ہمیں رشک سے تاجور دیکھتے ہیں
ذکر تاجوروں کا ہے تو آپ کے سر پر کوئی ایسی چیز ہونی چاہیئے جو ان سب کے تاجوں سے زیادہ بیش قیمت ہو۔ بطور نمومہ شعر پیش کر رہا ہوں، آپ مزید بہتری کی کوشش کریں۔
ہے سہرہ وفا کا مرے سر کی رونق
مجھے رشک سے تاجور دیکھتے ہیں

اگر نعتیہ انداز میں کہنا چاہیں تو
مرے سر کی زینت ہیں نعلین ان کے
مجھے رشک سے تاجور دیکھتے ہیں


نہ ہو بد گماں یوں نظر پھیرنے سے
تجھے دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں
عمدہ خیال ہے
لیکن "نظر پھیرنا" چونکہ محاورہ ہے اور یہاں اس محاورہ کا محل مجھے نہیں لگ رہا۔ استادِ محترم الف عین کی رہنمائی ضروری ہے


سفر شرط ہے پر ذرا سوچ عابد
سفر سے قبل ہم سفر دیکھتے ہیں
قبل کا تلفظ درست نہیں (قب+ل ہوتا ہے ق+بل نہیں)۔
پہلا مصرعہ بہتری چاہتا ہے۔ اگر اس شعر کا مطلب وہی ہے جو میں سمجھ رہا ہوں تو پھر اس شعر کو کچھ یوں ہونا چاہیئے

سفر زندگی کا ہے دشوار عابد
چلو پھر کوئی ہمسفر دیھتے ہیں

یا
اکیلے کٹے گا سفر کیسے عابد
سو پہلے کوئی ہمسفر دیکھتے ہیں


میرا کہا حتمی نہیں ہے۔ دونوں اساتذہ کی رائے بھی ضروری ہے۔
سلامت رہیں، محنت جاری رکھیں۔ آپ اچھے شاعر ہیں۔
یہ آپ نے غزل کا "بڑا آپریشن" کردیا شاید
 

الف عین

لائبریرین
@امجدعلی راجا کے معنوی نکات پسند آئے، لیکن انہوں نے تکنیکی مسائل کی نشان دہی نہیں کی، سوائے قبل‘ کے تلفظ کے۔

جو بھی میرے زخمء جگر دیکھتے ہیں
وہ جا جا کے ان کی نظر دیکھتے ہیں
۔۔ جو بھی کی دونوں صورتیں مجھے پسند نہیں آتیں۔ نہ ’جو بِ‘ اور نہ ’جُ بی‘۔ بلکہ واؤ والے الفاظ جو، تو ، کو وغیرہ میں واؤ کا اسقاط زیادہ فصیح ہے۔لیکن اسی طرح دو حرفی الفاظ میں آخری ی کا بھی (’بھی‘ کی ’ھ‘ نہیں گنی جاتی)۔ اور خاص کر جب دونوں ساتھ ہوں تو کرختگی لگتی ہے۔

نکلتے ہیں وہ شہر میں بن سنور کے
یہ ہم معجزہء ہنر دیکھتے ہیں
۔۔امجد میاں، جب محبوب خود حسین نہ ہو، تو میک اپ کیا معجزہ ہی کہا جائے گا نا!!!
ویسے یہاں ہمزہ اضافت کے ساتھ تلفظ غلط ہے۔ ’معجزائے‘ غلط استعمال ہے۔

ہماری محبت کی ہے یہ کرامت
ہمیں رشک سے تاجور دیکھتے ہیں
÷÷امجد سے متفق
نہ ہو بد گماں یوں نظر پھیرنے سے
تجھے دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں
۔۔کس کی نظر پھیرنے سے؟ پماری یا محبوب کی؟ یہ واضح نہیں ہوا۔
سفر شرط ہے پر ذرا سوچ عابد
سفر سے قبل ہم سفر دیکھتےہیں
۔۔یہاں بھی واضح نہیں کہ ’ہمسفر‘ مراد ہے، یا ہم ’سفر‘ دیکھتے ہیں؟
 
یہ آپ نے غزل کا "بڑا آپریشن" کردیا شاید
میں اسے تعریف سمجھوں یا۔۔۔۔۔۔۔۔ :sneaky:
نیا نیا استاد مقرر ہوا ہوں عبید بھیا۔ اس لئے جوشیلاپن زیادہ ہے :biggrin:
ہو سکتا ہے اس طرح اصلاح کے لئے مجھے کوئی ٹیگ ہی نہ کیا کرے، جان بچی رہے گی میری ;)
 
@امجدعلی راجا کے معنوی نکات پسند آئے، لیکن انہوں نے تکنیکی مسائل کی نشان دہی نہیں کی، سوائے قبل‘ کے تلفظ کے۔

جو بھی میرے زخمء جگر دیکھتے ہیں
وہ جا جا کے ان کی نظر دیکھتے ہیں
۔۔ جو بھی کی دونوں صورتیں مجھے پسند نہیں آتیں۔ نہ ’جو بِ‘ اور نہ ’جُ بی‘۔ بلکہ واؤ والے الفاظ جو، تو ، کو وغیرہ میں واؤ کا اسقاط زیادہ فصیح ہے۔لیکن اسی طرح دو حرفی الفاظ میں آخری ی کا بھی (’بھی‘ کی ’ھ‘ نہیں گنی جاتی)۔ اور خاص کر جب دونوں ساتھ ہوں تو کرختگی لگتی ہے۔

نکلتے ہیں وہ شہر میں بن سنور کے
یہ ہم معجزہء ہنر دیکھتے ہیں
۔۔امجد میاں، جب محبوب خود حسین نہ ہو، تو میک اپ کیا معجزہ ہی کہا جائے گا نا!!!
ویسے یہاں ہمزہ اضافت کے ساتھ تلفظ غلط ہے۔ ’معجزائے‘ غلط استعمال ہے۔

ہماری محبت کی ہے یہ کرامت
ہمیں رشک سے تاجور دیکھتے ہیں
÷÷امجد سے متفق
نہ ہو بد گماں یوں نظر پھیرنے سے
تجھے دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں
۔۔کس کی نظر پھیرنے سے؟ پماری یا محبوب کی؟ یہ واضح نہیں ہوا۔
سفر شرط ہے پر ذرا سوچ عابد
سفر سے قبل ہم سفر دیکھتےہیں
۔۔یہاں بھی واضح نہیں کہ ’ہمسفر‘ مراد ہے، یا ہم ’سفر‘ دیکھتے ہیں؟
شکریہ استادِ محترم
معنوی "نکات" پسند آنے پر میں خود کو سیاسی لیڈر سا محسوس کرنے لگا ہوں :)
استادِ محترم! آپ کیا چاہتے ہیں کہ میں ایک ہی وقت میں معنوی معاملات کے ساتھ ساتھ تکنیکی معاملات بھی دیکھوں؟ بچے کی جان لیں گے کیا؟ آپ جتنا Stamina نہیں ہے میرا۔
"قبل" کے علاوہ کوئی اور تکنیکی بات سمجھ ہی نہیں آئی، سمجھا کریں اندر کی بات
 
آخری تدوین:
@امجدعلی راجا کے معنوی نکات پسند آئے، لیکن انہوں نے تکنیکی مسائل کی نشان دہی نہیں کی، سوائے قبل‘ کے تلفظ کے۔

جو بھی میرے زخمء جگر دیکھتے ہیں
وہ جا جا کے ان کی نظر دیکھتے ہیں


۔۔ جو بھی کی دونوں صورتیں مجھے پسند نہیں آتیں۔ نہ ’جو بِ‘ اور نہ ’جُ بی‘۔ بلکہ واؤ والے الفاظ جو، تو ، کو وغیرہ میں واؤ کا اسقاط زیادہ فصیح ہے۔لیکن اسی طرح دو حرفی الفاظ میں آخری ی کا بھی (’بھی‘ کی ’ھ‘ نہیں گنی جاتی)۔ اور خاص کر جب دونوں ساتھ ہوں تو کرختگی لگتی ہے۔

نکلتے ہیں وہ شہر میں بن سنور کے
یہ ہم معجزہء ہنر دیکھتے ہیں
۔۔امجد میاں، جب محبوب خود حسین نہ ہو، تو میک اپ کیا معجزہ ہی کہا جائے گا نا!!!
ویسے یہاں ہمزہ اضافت کے ساتھ تلفظ غلط ہے۔ ’معجزائے‘ غلط استعمال ہے۔

ہماری محبت کی ہے یہ کرامت
ہمیں رشک سے تاجور دیکھتے ہیں
÷÷امجد سے متفق

سر میرا کہنے مقصد پے کہ محبت کرنے والے کا مقام لوگوں کے دلوں میں بادشاہوں کی نسبت زیادہ ہو تا ہے
نہ ہو بد گماں یوں نظر پھیرنے سے
تجھے دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں

معذرت سے سر دوسرے مصرعے میں واضح ہو جاتا ہے کہ مخاطب کون ہے
۔۔کس کی نظر پھیرنے سے؟ پماری یا محبوب کی؟ یہ واضح نہیں ہوا۔
سفر شرط ہے پر ذرا سوچ عابد
سفر سے قبل ہم سفر دیکھتےہیں
۔۔یہاں بھی واضح نہیں کہ ’ہمسفر‘ مراد ہے، یا ہم ’سفر‘ دیکھتے ہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
ہماری محبت کی ہے یہ کرامت
کا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے۔ وہ مطلب ظاہر نہیں ہوتا جو عابد چاہتے ہیں
 
ہماری محبت کی ہے یہ کرامت
کا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے۔ وہ مطلب ظاہر نہیں ہوتا جو عابد چاہتے ہیں

سر اب دیکھیں


ا
مرے جو بھی زخمء جگر دیکھتے ہیں

وہ جا جا کے ان کی نظر دیکھتے ہیں


نکلتے ہیں جب باغ میں بن سنور کے

انھیں پھول بھر کے نظر دیکھتے ہیں


ہمارے سروں پر وفا کا ہے سہرا

ہمیں رشک سے تاجور دیکھتے ہیں


نہ ہو بد گماں یوں نظر پھیرنے سے

تجھے دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں


وہ مائل ہوئے جو ہماری طرف بھی
یہ اپنی دعا کا اثر دیکھتے ہیں

سفر ہے ضروری مگر پہلے عابد

حسیں سا کوئی ہمسفر دیکھتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اور نظر پھیرنے والی بات اب بھی باقی ہے، اوپر میرا پیگام دیکھو۔
باقی اشعار بہتر ہو گئے ہیں
 
Top