جو بھی میرے زخمء جگر دیکھتے ہیں
وہ جا جا کے ان کی نظر دیکھتے ہیں
واہ بہت خوب۔ اچھا مطلع ہے۔
خیال بہت اچھا ہے لیکن بیانیہ بہتری کا متقاضی ہے۔
غزل کا آغاز "جو" مختصر اور "بھی" طویل آواز کے ساتھ بھلا نہیں لگ رہا۔ (یہ میری زاتی رائے ہے تکنیکی خرابی نہیں)
پہلے مصرعے میں حیرانگی والی بات کریں۔ لوگ جا جا کے ان کی نظر دیکھتے ہیں تو ان کی نظر کے وار بھی تو اتنے انوکھے یا شدید ہونے چاہیئیں نا
مثلاً : مرا جو بھی چھلنی جگر دیکھتے ہیں
زخمِ جگر میں اتنی شدت کا اظہار نہیں ہوتا جتنی جگر کے چھلنی ہونے سے ہوتا ہے
نکلتے ہیں وہ شہر میں بن سنور کے
یہ ہم معجزہء ہنر دیکھتے ہیں
شہر میں بن سنور کے نکلنے میں کوئی معجزاتی بات نظر تو نہیں آتی بظاہر۔
(البتہ بیوٹی پارلر کا معجزہ ہو سکتا ہے )
کوئی اور بات کرں جس میں حیرانگی ہو، کوئی غیرمعمولی بات ہو جیسے:
وہ صحرا سے گزریں تو مہکیں بہاریں
انہیں ڈھونڈتی پھر رہی ہیں بہاریں
صبا ہے ہمیشہ تعاقب میں ان کے
اُڑیں تتلیاں ان کا دیدار کرنے
ہماری محبت کی ہے یہ کرامت
ہمیں رشک سے تاجور دیکھتے ہیں
ذکر تاجوروں کا ہے تو آپ کے سر پر کوئی ایسی چیز ہونی چاہیئے جو ان سب کے تاجوں سے زیادہ بیش قیمت ہو۔ بطور نمومہ شعر پیش کر رہا ہوں، آپ مزید بہتری کی کوشش کریں۔
ہے سہرہ وفا کا مرے سر کی رونق
مجھے رشک سے تاجور دیکھتے ہیں
اگر نعتیہ انداز میں کہنا چاہیں تو
مرے سر کی زینت ہیں نعلین ان کے
مجھے رشک سے تاجور دیکھتے ہیں
نہ ہو بد گماں یوں نظر پھیرنے سے
تجھے دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں
عمدہ خیال ہے
لیکن "نظر پھیرنا" چونکہ محاورہ ہے اور یہاں اس محاورہ کا محل مجھے نہیں لگ رہا۔ استادِ محترم الف عین کی رہنمائی ضروری ہے
سفر شرط ہے پر ذرا سوچ عابد
سفر سے قبل ہم سفر دیکھتے ہیں
قبل کا تلفظ درست نہیں (قب+ل ہوتا ہے ق+بل نہیں)۔
پہلا مصرعہ بہتری چاہتا ہے۔ اگر اس شعر کا مطلب وہی ہے جو میں سمجھ رہا ہوں تو پھر اس شعر کو کچھ یوں ہونا چاہیئے
سفر زندگی کا ہے دشوار عابد
چلو پھر کوئی ہمسفر دیھتے ہیں
یا
اکیلے کٹے گا سفر کیسے عابد
سو پہلے کوئی ہمسفر دیکھتے ہیں
میرا کہا حتمی نہیں ہے۔ دونوں اساتذہ کی رائے بھی ضروری ہے۔
سلامت رہیں، محنت جاری رکھیں۔ آپ اچھے شاعر ہیں۔