برائے اصلاح


  • Total voters
    1
مجھے بھی محبّت کسی کی ملے
حُسن اور جوانی کسی کی ملے
وفا کی ضرورت کسی کی ادا
مجھے بھی نشانی کسی کی ملے
بہت ہے روایت عقب سے چُھڑا
مجھے نا ذلالت کسی کی ملے
کسی کو مسیحا کبھی نا بنا
اگر نا شہادت کسی کی ملے
اگر ہو پریشاں کھڑا ہو جدا
اُسے تو اعانت سبھی کی ملے
جوانی ہے ورق پلٹ ہی رہی
اب ارشد محبّت کسی کی ملے
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم آپ کی شاعری پر کئی جگہ کمینٹ کر چکا ہوں۔ پہلے پرانی غزلوں میں خود ترمیم کرو تو پھر با قاعدہ اصلاح کا سوچا جائے۔
 
Top