ملتے نہیں مکتب سے یہ اسباقِ حکیمانہ
لازم ہے ہو فطرت میں اسلوبِ فقیرانہ
ملتا نہیں میخانے میں کوئی مقام اس کو
نا ہوں پاس جس کے کوئی افکارِ حکیمانہ
عزّت کے لئے دنیا میں شرط ہے خودّاری
آتے ہیں بے دینی سے ہی اندازِ بہیمانہ
کتنے تہی دامن ہیں مسلم زمانے کے
ساقی ہے نا جام ان کا نہ ان کا ہے میخانہ
تم تو رہو اُس کے در پہ سربسجود ارشد
جس نے دیا ہے تجھ کو یہ اندازِ فقیحانہ
 

فرقان احمد

محفلین
عمدہ کاوش معلوم ہوتی ہے۔ 'فقیحانہ' لفظ شاید درست نہیں، اسے 'فقیہانہ' سے بدل دیجیے، شکریہ!
 

الف عین

لائبریرین
اس کے افاعیل سمجھ میں نہیں آ سکے۔
ملتے نہیں مکتب سے یہ اسباقِ حکیمانہ
یہ مصرع کسی خود ساختہ بحر میں لگتا ہے۔ ہاں، اگر ’یہ‘ کو نکال دیا جائے تو بحر بنتی ہے، دونوں مصرعوں کی
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
لازم ہے ہو فطرت میں اسلوبِ فقیرانہ
دوسرے اور تیسرے شعر کے پہلئ مصرع اسی بحر میں ہیں۔ باقی مصارع نا معلوم بحر کے ہیں۔
یہ بحر دو حصوں میں منقسم ہے، مفعول مفاعیلن ۔۔۔ مفعول مفاعیلن
اس لیے بہتر ہو کہ بات آدھے حصے میں مکمل ہو جائے۔ ان دونوں مصرعوں کا نصف دوم ‘میں‘ سے شروع ہو رہا ہے جس کا تعلق پہلے مصرع سے ہے۔
دوسری بات ۔۔ کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ’نہ‘ کو ‘نا‘ نہ لکھا جا سکتا ہے اور نہ تقطیع کیا جا سکتا ہے۔ ’نا‘ محض استمراری درست ہے۔ سمجھ رہے ہیں نا!!!
 
الف عین صاحب
تبدیلیوں کے بعد دوبارا پیشِ خدمت ہے
------------------------
ملتے نہیں مکتب سے اسباقِ حکیمانہ
لازم ہے ہو فطرت میں اسلوب فقیرانہ
-------
ملتا نہیں میخانے میں کوئی مقاماُس کو
جو ہو نہ خیالوں میں انداز جداگانہ
--------
عزّت کے لئے دنیا میں شرط ہے خودّاری
آتے ہیں بے دینی سے ہی اطوار بہیمانہ
-------
کتنے ہی تہی دامن ہیں ہم تو زمانے میں
ساقی بھی نہیں ہم ہے اپنا نہ یہ میخانہ
--------
عزّت ہی نہیں کوئی قوموں کے تو ہاں اپنی
اپنا تو ہے دنیا میں انداز فقیرانہ
--------
سر کو جھکانا ہے ارشد اسی کے در پر
جس نے دیا ہے تجھ کو یہ انداز فقیہانہ
 

الف عین

لائبریرین
ملتے نہیں مکتب سے اسباقِ حکیمانہ
لازم ہے ہو فطرت میں اسلوب فقیرانہ
------- دونوں مصرعوں میں ربط نہیں محسوس ہوتا۔ 'ہے ہو ' صوتی طور پر اچھا نہیں ۔
ملتا نہیں میخانے میں کوئی مقام اُس کو
جو ہو نہ خیالوں میں انداز جداگانہ
-------- مے خانے کی کیا خصوصیت جس کی وجہ سے بات نصف ھصے میں ٹوت رہی ہے۔ یوں کر دیں۔ 'ملتا نہیں دنیا میں
لیکن دوسرا مصرع زبان کے حساب سے غلط ہے۔ آدمی انداز ہوتا نہیں، رکھتا ہے۔ یعنی کہنا یہ تھا کہ جو انداز جداگانہ نہ 'رکھتا' ہو۔
عزّت کے لئے دنیا میں شرط ہے خودّاری
آتے ہیں بے دینی سے ہی اطوار بہیمانہ
------- دنیا۔ ۔۔ میں والی غلطی۔
خود داری ہے دنیا میں عزت کے لیے لازم
درست مصرع ہو گا۔
لیکن دوسرا مصرع بحر سے خارج ۔ 'ہی' زائد ہے۔ بے دینی کی 'ے' نہین گرائی جا سکتی۔
کتنے ہی تہی دامن ہیں ہم تو زمانے میں
ساقی بھی نہیں ہم ہے اپنا نہ یہ میخانہ
-------- دوسرا مصرع بے معنی ہے۔ پہلا بھی واضح نہیں
عزّت ہی نہیں کوئی قوموں کے تو ہاں اپنی
اپنا تو ہے دنیا میں انداز فقیرانہ
-------- 'تو' دونوں مصرعوں میں اضافی ہے۔ پہلے میں 'یہاں اپنی' کیا جا سکتا ہے۔ مفہوم البتہ واضح نہیں کہ فقیرانہ انداز کی وجہ سے عزت نہیں ہے؟
سر کو جھکانا ہے ارشد اسی کے در پر
جس نے دیا ہے تجھ کو یہ انداز فقیہانہ
۔۔۔دونوں مصرع بحر سے خارج
 
Top