فعولن فعولن فعولن فعولن
---------------------
محبّت سے دنیا میں جنگ و جدل ہے
محبّت ہی نفرت کا نعم البدل ہے
---------------
محبّت کی خاطر یہ دنیا بنی ہے
محبّت ابد اور محبّت ازل ہے
----------
محبّت کبھی ہے فغاں اور زاری
محبّت کبھی تو یہ ہی اک غزل ہے
-----------
محبّت کرو تو ڈرو نا جہاں سے
محبّت بغاوت کا ہی اک بِگل ہے
--------------
محبّت کی راہوں پہ چلتے رہو تم
اُسی راہ چلو جو ضربِ مثل ہے
-------------
وفا کی ہی راہوں پہ چلنا ہے ارشد
محبّت سے ہٹنا وفا کا قتل ہے
 

الف عین

لائبریرین
محبّت سے دنیا میں جنگ و جدل ہے
محبّت ہی نفرت کا نعم البدل ہے
---------------ایطا کا عیب ڈر آیا ہے۔ یعنی قافیے یہ احساس دیتے ہیں کہ دل، بدل، جلد یعنی 'دل' پر ختم ہونے والے قوافی ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے
محبّت کی خاطر یہ دنیا بنی ہے
محبّت ابد اور محبّت ازل ہے
---------- درست
محبّت کبھی ہے فغاں اور زاری
محبّت کبھی تو یہ ہی اک غزل ہے
-----------'تو یہ ہی/یہی ' بھرتی کے الفاظ ہیں
محبّت کرو تو ڈرو نا جہاں سے
محبّت بغاوت کا ہی اک بِگل ہے
-------------- 'نا' کے بارے میں کئی بار کہہ چکا ہوں ۔ یہان 'مت' استعمال کیا جا سکتا ہے
محبّت کی راہوں پہ چلتے رہو تم
اُسی راہ چلو جو ضربِ مثل ہے
------------- دوسرا مصرع بحر سے خارج ۔ مثل کی ث پر جزم ہے درست تلفظ میں
وفا کی ہی راہوں پہ چلنا ہے ارشد
محبّت سے ہٹنا وفا کا قتل ہے
۔۔۔۔۔۔قتل کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے
 
تصحیح کے بعد دوبارا حاضرِ حدمت
---------------------
سکھاتی یہ نفرت تو جنگ و جدل ہے
محبّت ہی نفرت کا نعم البدل ہے

محبّت کی خاطر یہ دنیا بنی ہے
محبّت ابد اور محبّت ازل ہے

محبّت کبھی ہے فغاں اور زاری
کبھی گنگناتی ہوئی اک غزل ہے

محبّت جو کرتے ہیں ڈرتے نہیں ہیں
محبّت بغاوت کا ہی اک بِگل ہے

محبّت کی راہوں پہ چلتے رہو تم
محبّت تمہارے مسائل کا حل ہے

محبّت ہی ارشد ہے منزل تمہاری
ہے چلنا اسی پر ارادہ اٹل ہے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں اب بھی ایطا ہے۔ جلد اور بدل قوافی میں۔
آخری شعر میں لگتا تو یہ ہے کہ اپنے ارادے کے اٹل ہونے کی بات کی جا رہی ہے۔ لیکن پہلے میں منزل تمہاری کہا جا رہا ہے! کیا مخاطب کے ارادے کو اٹل کہا جا سکتا ہے، مجھے اس میں شک ہے۔ 'چلنا' کا فعل بھی اپنے چلنے کی طرف اشارہ کرتا ہے
ہے
 
تبدیلیوں کے بعد ایک دفہ پھر
-----------------
وفا کو نبھانا ہی اچّھا عمل ہے
کسی کے لئے یہ دماغی خلل ہے
محبّت کی خاطر یہ دنیا بنی ہے
محبّت ابد اور محبّت ازل ہے
محبّت کبھی ہے فغاں اور زاری
کبھی گنگناتی ہوئی اک غزل ہے
محبّت کی راہوں پہ چلتے رہو تم
محبّت تمہارے مسائل کا حل ہے
محبّت ہی تو ہے اب ارشد کی منزل
ہےاسی کو ہی پانا ارادہ اٹل ہے
 

الف عین

لائبریرین
پہلے چاروں اشعار درست ہیں۔ لیکن آخری شعر میں اب بھی ارادہ اٹل کی زبان اور محاورہ درست نہین۔ کہنا یہ ہے کہ اسی محبت کو پانے کا ارشد کا اٹل ارادہ ہے۔ لیکن الفاظ سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی
 
فعولن فعولن فعولن فعولن
---------------------
محبّت سے دنیا میں جنگ و جدل ہے
محبّت ہی نفرت کا نعم البدل ہے
---------------
محبّت کی خاطر یہ دنیا بنی ہے
محبّت ابد اور محبّت ازل ہے
----------
محبّت کبھی ہے فغاں اور زاری
محبّت کبھی تو یہ ہی اک غزل ہے
-----------
محبّت کرو تو ڈرو نا جہاں سے
محبّت بغاوت کا ہی اک بِگل ہے
--------------
محبّت کی راہوں پہ چلتے رہو تم
اُسی راہ چلو جو ضربِ مثل ہے
-------------
وفا کی ہی راہوں پہ چلنا ہے ارشد
محبّت سے ہٹنا وفا کا قتل ہے
محترم ارشد صاحب غزل کے لیے داد قبول کیجیے۔ اصلاح تو استادِ محترم نے کردی ہے اس لیے مزید کچھ کہنے کی مجال نہیں البتہ پہلے شعر کے حوالے سے ایک مشورہ ہے (جسے نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے)

محبّت سے دنیا میں جنگ و جدل ہے
محبّت ہی نفرت کا نعم البدل ہے
شعر پڑھتے ہوئے دونوں مصرعوں میں محبت کے بیان میں تضاد کی صورت پیدا ہورہی ہے۔ پہلے مصرعے میں محبت جنگ و جدل کا سبب بن رہی ہے جبکہ دوسرے میں یہ نفر ت کا نعم البدل جبکہ جنگ و جدل کی بنیاد بھی تقریباً یہی ہے۔ اگر یوں کرلیا جائے تو کیسا ہے ؟


محبّت کی دنیا سے جنگ و جدل ہے
محبّت ہی نفرت کا نعم البدل ہے

دوسری بات یہ کہ غزل جس شدت سے محبت کو موضوع بنایا گیا ہے اس سے اس پر نظم کا گمان ہوتا ہے۔
 
آپ دونوں احباب و محترمان کے مشوروں کا بہت بہت شکریہ---عربی میں محترمین جمع کے لئے استمال ہوتا ہے اس لئے دو کے لئے محترمان استمال کیا ہے
 
محبّت نہیں ہے کسی کو کسی سے
زمانے میں آیا یہ رد و بدل ہے
( محترم الف عین اور محّمد خرّم یاسین صاحبان کی خدمت میں ، کیا اس طرح صھیح ہے
 
Top