محمد فائق
محفلین
صرف اور صرف اضطراب میں ہے
زندگی مستقل عذاب میں ہے
کیا گلہ اس سے بے وفائی کا
نقص میرے ہی انتخاب میں ہے
بے ہنر ہوں یہی ہنر ہے مرا
کام میرے بھی دستیاب میں ہے
دل! خرابہ ہے تُو، فضول تری
جان اٹکی ہوئی گلاب میں ہے
کیا بھروسہ ترے تبسّم کا ؟
پائیداری بھی کیا حباب میں ہے ؟
شیخ ایمان بچ گیا تیرا
شکر ہے وہ ابھی حجاب میں ہے
دنیا داری عذاب ہے فائق
عافیت اس سے اجتناب میں ہے
زندگی مستقل عذاب میں ہے
کیا گلہ اس سے بے وفائی کا
نقص میرے ہی انتخاب میں ہے
بے ہنر ہوں یہی ہنر ہے مرا
کام میرے بھی دستیاب میں ہے
دل! خرابہ ہے تُو، فضول تری
جان اٹکی ہوئی گلاب میں ہے
کیا بھروسہ ترے تبسّم کا ؟
پائیداری بھی کیا حباب میں ہے ؟
شیخ ایمان بچ گیا تیرا
شکر ہے وہ ابھی حجاب میں ہے
دنیا داری عذاب ہے فائق
عافیت اس سے اجتناب میں ہے