فعولن فعولن فعولن فعولن
--------------------
یہ دنیا ہے ظالم مکّاروں کی دنیا
لٹیروں وڈیروں غدّاروں کی دنیا
یہ کردار والوں کی نہیں ہے اب تو
بنی ہے یہ تو بدکاروں کی دنیا
شرافت گئی ہے اس دنیا سے لوگو
بنی ہے یہ اب خونخواروں کی دنیا
مسائل نے لوگوں کو یوں ہے ستایا
بنی ہے یہ تو اب بیماروں کی دنیا
ہیں زندہ ابھی کچھ تو دنیا میں لوگو
یہ ساری نہیں ہے مرداروں کی دنیا
حقیقت یہی بس ہے دنیا کی یارو
یہ دنیا نہیں اقداروں کی دنیا
اب نکلو اس خوابِ خرگوش سے لوگو
بناؤاسے اب حقداروں کی دنیا
اب ارشد تمہیں یہ ہی کرنا ہے لازم
بنانا ہے اس کو مہکاروں کی دنیا
 
مدیر کی آخری تدوین:

عظیم

محفلین
آپ کی اس غزل میں قوافی کی درست تقطیع نہیں ہوئی ہے ۔
مثلاً 'مکّاروں' اور 'غداروں' کا وزن 'فعولن' نہیں ہے ۔
ان الفاظ کو یوں تقطیع کِیا جائے گا ، 'مک کا رو(ں)' غد دا رو(ں) ۔
اگر آپ 'مفاعیلن مفاعیلن فعولن' کی بحر استعمال کرتے تو ان الفاظ یا قوافی کو آسانی سے برتا جا سکتا تھا ۔

مثلاً
یہ دنیا تو ہے مکاروں کی دنیا
لٹیروں اور غداروں کی دنیا

پہلے مصرع میں 'تو' کو طویل کھینچا ہے میں نے، جس کو بابا (الف عین) پسند نہیں فرماتے، صرف آپ کے سمجھانے کے لیے ۔
 
عظیم بھائی اسلام علیکم ۔آپ نے صحیح فرمایا ،کیونکہ تشدید کی وجہ سے ک دو دفہ آتا ہے۔ مفاعیلن والی بحر میں تصحیح کروں گا۔ ایک بار پھر شکریہ
 
Top