برائے اصلاح

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
-------------------
کہنے کو ہیں سب مومن ایمان نہیں ملتا
اللہ پر بھروسہ اور ایقان نہیں ملتا
امّت تو فرقوں اور گروہوں میں ہی بٹی ہے
تقسیم جو روکے وہ وجدان نہیں ملتا
دنیا سے تعلّق بھی رکھنا ہے ہمیں لازم
حالات جو سمجھے وہ انسان نہیں ملتا
دشمن جو ہمارے ہیں پہچان نہیں ہم کو
اس دھرتی پہ ہم سا تو نادان نہیں ملتا
رہبر وہ عطا کر جو سچّائی ہی کو جانے
دلدل سے نکلنے کا سامان نہیں ملتا
غفلت میں میں پڑے ہیں ہم حالات نہیں بس میں
اس بات کا بھی ہم کو عرفان نہیں ملتا
لازم تو نہیں سب کو مل جائے جہاں سارا
ملتی ہے جسے دنیا تو ایمان نہیں ملتا
ارشد تو ہے تیرا ہی سب دنیا کے اے مالک
تیرے ہی سوا مجھ کو سبحان نہیں ملتا
 

الف عین

لائبریرین
یہ مصرع بحر سے خارج ہیں
اللہ پر بھروسہ اور ایقان نہیں ملتا
امّت تو فرقوں اور گروہوں میں ہی بٹی ہے
ملتی ہے جسے دنیا تو ایمان نہیں ملتا
سبحان کے معنی پاکی، حمد وغیرہ کے ہیں، یہ اسم یا صفت نہیں۔
باقی اشعار عروضی طور پر درست ہیں لیکن ان میں خیالات کی وسعت کا احساس نہیں ہوتا، محض تک بندی کہنا چاہیے۔ یہ شعر تو مثلا دو لخت ہی پے، دونوں مصرعوں میں ربط نہیں
رہبر وہ عطا کر جو سچّائی ہی کو جانے
دلدل سے نکلنے کا سامان نہیں ملتا
 
Top