برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے۔

بہاروں کے سبب سارے چمن میں رونق آئی ہے
مگر اب تک لبِ گل پر خزاؤں کی دہائی ہے

نسیمِ صبح آنگن میں اچانک مسکرائی ہے
اڑا کر شہر سے تیرے معطر خاک لائی ہے

خطیبِ شہر اب جمعہ کے خطبے میں سنائے گا
روایت اس نے گھر بیٹھے ہوئے جو خود بنائی ہے

ہزاروں وسوسوں کا شور پیچھے چھوڑ آیا ہوں
طبیعت کو بڑی مشکل سے خاموشی سکھائی ہے

فقط چند آنسوؤں کے نام پر سودا ہوا دل کا
بہت سستی کسی نے پیار کی قیمت لگائی ہے

کبھی ٹوٹے ہوئے دل پر مجھے افسوس تھا لیکن
اسی ٹوٹے ہوئے دل نے مجھے الفت سکھائی ہے

محبت کے مضامین اس طرح وارد ہوئے دل پر
بنا موسم کے جیسے دشتِ غم میں بارش آئی ہے

نکھر کر خوبصورت ہو گئی وہ پھول کی پتی
سحر ہونے پہ جو شبنم کی بوندوں سے نہائی ہے

فقیہِ شہر کے فتووں کی زد میں آ گیا کوئی
ہجومِ جہل نے پھر سے کوئی بستی جلائی ہے​
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تو پوری غزل درست لگ رہی ہے صرفِ مطلع میں لب گل سے واحد پھول کی واحد پنکھڑی سے بات بنتی نظر نہیں آتی اگرچہ اساتذہ کے یہاں بھی ایسی سند مل جائے گی
 

فلسفی

محفلین
مجھے تو پوری غزل درست لگ رہی ہے صرفِ مطلع میں لب گل سے واحد پھول کی واحد پنکھڑی سے بات بنتی نظر نہیں آتی اگرچہ اساتذہ کے یہاں بھی ایسی سند مل جائے گی
سر کیا یہ متبادل موجودہ مصرعے سے بہتر رہے گا

مگر پھولوں کے ہونٹوں پر خزاؤں کی دہائی ہے
 
Top