برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے

زندگی بتا تجھے، کس کا انتظار ہے
تجھ پہ موت کے سوا، کس کا اختیار ہے

گوشہء نشیں ہے وہ ، تو پھر آج شہر میں
ہر درودوار پر، کس کا اشتہار ہے

منزلیں سراب ہیں، دشتِ زیست میں تو پھر
اے مسافر اب تجھے ، کس کا اعتبار ہے

قصرِ شاہ کے قریب، بھوک محوِ رقص ہے
اس عجیب ملک پر، کس کا اقتدار ہے

امتحاں کے وقت میں ، مشکلوں کے سامنے
دیکھنا ہے حوصلہ، کس کا برقرار ہے

بے قصور جان کر، بے وفا سے جا ملا
ہائے بے نوا یہ دل ، کس کا غم گسار ہے

جب گناہ کے لیے ، پورا اختیار ہو
تب پتا چلے یہ نفس ، کس کا پیروکار ہے

ہو خزاں یا فصلِ گل ، اس کو فکر ہی نہیں
جس کے صحن میں کوئی ، پھول ہے نہ خار ہے

خیر خواہ ہوں مگر ، اس کو کیا صلاح دوں
جس کی آنکھوں میں ابھی ، عشق کا خمار ہے

سر جھکا کے فلسفیؔ ، اے خدا ترے حضور
اپنے ہر گناہ پر، آج شرمسار ہے
نوٹ: درودوار کی ترکیب معلوم نہیں درست ہے کہ نہیں۔ اگر درست نہیں تو اس کا متبادل یہ ہو سکتا ہے؟
ہر گلی کے موڑ پر، کس کا اشتہار ہے
 

الف عین

لائبریرین
دوار تو یقیناً مجھے پسند نہیں یہ ہندی شاعر لکھتے ہیں۔ لیکن گلی کے موڑ بھی اچھا متبادل نہیں. کچھ اور بھی سوچو لیکن اس کے علاوہ گوشہء نشین کی ترکیب سمجھ نہیں سکا اسی شعر میں ۔ محض گوشہ نشین کا محل ہے۔ اسی طرح کئی حضرات گوشِ گزار بھی لکھتے ہیں حالانکہ کسر اضافت کی وہاں بھی ضرورت نہیں

ہو خزاں کہ فصل گل بہتر ہو گا بنسبت یا فصل گل کے
باقی درست ہے غزل ۔ روانی مزید بہتر کی جا سکتی ہے کچھ اشعار جیسے مقطع میں جہاں بعد کا ٹکڑا پہلے لایا جا سکتا ہے
 

فلسفی

محفلین
دوار تو یقیناً مجھے پسند نہیں یہ ہندی شاعر لکھتے ہیں۔ لیکن گلی کے موڑ بھی اچھا متبادل نہیں. کچھ اور بھی سوچو لیکن اس کے علاوہ گوشہء نشین کی ترکیب سمجھ نہیں سکا اسی شعر میں ۔ محض گوشہ نشین کا محل ہے۔ اسی طرح کئی حضرات گوشِ گزار بھی لکھتے ہیں حالانکہ کسر اضافت کی وہاں بھی ضرورت نہیں

ہو خزاں کہ فصل گل بہتر ہو گا بنسبت یا فصل گل کے
باقی درست ہے غزل ۔ روانی مزید بہتر کی جا سکتی ہے کچھ اشعار جیسے مقطع میں جہاں بعد کا ٹکڑا پہلے لایا جا سکتا ہے
شکریہ سر تبدلیاں کردیں ہیں اب دیکھیے

زندگی بتا تجھے کس کا انتظار ہے
تجھ پہ موت کے سوا کس کا اختیار ہے

منکسر مزاج تُو ، اب بتا کہ شہر میں
ہر جگہ لگا ہے جو، کس کا اشتہار ہے

دشتِ زیست کی تو سب، منزلیں سراب ہیں
اے مسافر اب تجھے ، کس کا اعتبار ہے

قصرِ شاہ کے قریب، بھوک محوِ رقص ہے
اس عجیب ملک پر، کس کا اقتدار ہے

امتحاں کے وقت میں ، مشکلوں کے سامنے
دیکھنا ہے حوصلہ، کس کا برقرار ہے

بے قصور جان کر، بے وفا سے جا ملا
ہائے بے نوا یہ دل ، کس کا غم گسار ہے

جب گناہ کے لیے ، پورا اختیار ہو
تب پتا چلے یہ نفس ، کس کا پیروکار ہے

ہو خزاں کہ فصلِ گل ، اس کو فکر ہی نہیں
جس کے صحن میں کوئی ، پھول ہے نہ خار ہے

خیر خواہ ہوں مگر ، اس کو کیا صلاح دوں
جس کی آنکھوں میں ابھی ، عشق کا خمار ہے

اے خدا ترے حضور، سر جھکا کے فلسفیؔ
اپنے ہر گناہ پر، آج شرمسار ہے
سر میری ناقص فہم کے مطابق تو نشان لگے اشعار میں ہی تبدیلی کی ضرورت تھی۔ اگر کہیں اور بھی ضرورت ہے تو آپ نشاندہی فرما دیں۔
 
Top