فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے
ہر گلی کے موڑ پر، کس کا اشتہار ہے
زندگی بتا تجھے، کس کا انتظار ہے
تجھ پہ موت کے سوا، کس کا اختیار ہے
گوشہء نشیں ہے وہ ، تو پھر آج شہر میں
ہر درودوار پر، کس کا اشتہار ہے
منزلیں سراب ہیں، دشتِ زیست میں تو پھر
اے مسافر اب تجھے ، کس کا اعتبار ہے
قصرِ شاہ کے قریب، بھوک محوِ رقص ہے
اس عجیب ملک پر، کس کا اقتدار ہے
امتحاں کے وقت میں ، مشکلوں کے سامنے
دیکھنا ہے حوصلہ، کس کا برقرار ہے
بے قصور جان کر، بے وفا سے جا ملا
ہائے بے نوا یہ دل ، کس کا غم گسار ہے
جب گناہ کے لیے ، پورا اختیار ہو
تب پتا چلے یہ نفس ، کس کا پیروکار ہے
ہو خزاں یا فصلِ گل ، اس کو فکر ہی نہیں
جس کے صحن میں کوئی ، پھول ہے نہ خار ہے
خیر خواہ ہوں مگر ، اس کو کیا صلاح دوں
جس کی آنکھوں میں ابھی ، عشق کا خمار ہے
سر جھکا کے فلسفیؔ ، اے خدا ترے حضور
اپنے ہر گناہ پر، آج شرمسار ہے
نوٹ: درودوار کی ترکیب معلوم نہیں درست ہے کہ نہیں۔ اگر درست نہیں تو اس کا متبادل یہ ہو سکتا ہے؟تجھ پہ موت کے سوا، کس کا اختیار ہے
گوشہء نشیں ہے وہ ، تو پھر آج شہر میں
ہر درودوار پر، کس کا اشتہار ہے
منزلیں سراب ہیں، دشتِ زیست میں تو پھر
اے مسافر اب تجھے ، کس کا اعتبار ہے
قصرِ شاہ کے قریب، بھوک محوِ رقص ہے
اس عجیب ملک پر، کس کا اقتدار ہے
امتحاں کے وقت میں ، مشکلوں کے سامنے
دیکھنا ہے حوصلہ، کس کا برقرار ہے
بے قصور جان کر، بے وفا سے جا ملا
ہائے بے نوا یہ دل ، کس کا غم گسار ہے
جب گناہ کے لیے ، پورا اختیار ہو
تب پتا چلے یہ نفس ، کس کا پیروکار ہے
ہو خزاں یا فصلِ گل ، اس کو فکر ہی نہیں
جس کے صحن میں کوئی ، پھول ہے نہ خار ہے
خیر خواہ ہوں مگر ، اس کو کیا صلاح دوں
جس کی آنکھوں میں ابھی ، عشق کا خمار ہے
سر جھکا کے فلسفیؔ ، اے خدا ترے حضور
اپنے ہر گناہ پر، آج شرمسار ہے
ہر گلی کے موڑ پر، کس کا اشتہار ہے