فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے
چند لفظوں میں فقط لُبِ لباب آیا ہے
مدتوں بعد کسی خط کا جواب آیا ہے
اس لیے تھام لیا ہاتھ مرا ہاتھوں میں
نیند میں شاید اسے ہجر کا خواب آیا ہے
سرخ آندھی چلی ہے زور سے ، لگتا ہے یوں
مجرموں کی کسی بستی میں عذاب آیا ہے
میرے سب دوست گناہوں سے ہوئے ہیں تائب
آہ کس وقت مرا عہدِ شباب آیا ہے
پاس آ کر بھی نگاہوں سے مری اوجھل ہے
دل کے صحرا میں کوئی مثلِ سراب آیا ہے
ایک پل بھی اسے صدیوں کی طرح لگتا ہے
بے مہر وقت کے جو زیرِ عتاب آیا ہے
لوگ کہتے رہیں اچھا ہے برا ہے لیکن
عشق میں کس کو سمجھ عیب و صواب آیا ہے
مدتوں بعد کسی خط کا جواب آیا ہے
اس لیے تھام لیا ہاتھ مرا ہاتھوں میں
نیند میں شاید اسے ہجر کا خواب آیا ہے
سرخ آندھی چلی ہے زور سے ، لگتا ہے یوں
مجرموں کی کسی بستی میں عذاب آیا ہے
میرے سب دوست گناہوں سے ہوئے ہیں تائب
آہ کس وقت مرا عہدِ شباب آیا ہے
پاس آ کر بھی نگاہوں سے مری اوجھل ہے
دل کے صحرا میں کوئی مثلِ سراب آیا ہے
ایک پل بھی اسے صدیوں کی طرح لگتا ہے
بے مہر وقت کے جو زیرِ عتاب آیا ہے
لوگ کہتے رہیں اچھا ہے برا ہے لیکن
عشق میں کس کو سمجھ عیب و صواب آیا ہے