منذر رضا
محفلین
السلام علیکم۔۔۔۔محفل کے واجب الاحترام اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے۔۔۔۔
الف عین
محمد وارث
یاسر شاہ
محمد تابش صدیقی
محمد خلیل الرحمٰن
سید عاطف علی
محمد ریحان قریشی
ایک خم سے تو نہیں میرا گزارا ہوتا
ظرف ساقی کو مرا تم نے بتایا ہوتا
شبِ فرقت میں قیامت سی تھی گزری مجھ پر
ان کو میں نے یہ بتا کر نہ رلایا ہوتا
تم بھی اے یار! گریباں کو مرے دیکھتے چاک
دنیا میں کوئی بھی درزی جو نہ آیا ہوتا
غیر حالت سے مری، رازِ محبت کھل گیا
بزم میں ناوکِ مژگاں نہ چلایا ہوتا
ہائے دامن پہ مرے سرخ نشاں پڑ گئے ہیں
کاش آنکھوں سے مری خون نہ ٹپکا ہوتا
بے رخی ترکِ محبت کا اشارہ ہی تو تھی
ترک کر دیتے محبت جو یہ سمجھا ہوتا
گرمی بڑھ جاتی مئے ناب کی پھر اے ساقی!
جو نگاہوں سے بھی کچھ اس میں ملایا ہوتا
قتل کرنے کی نہ زحمت تجھے کرنی پڑتی
خود ہی مر جاتے جو ابرو کا اشارہ ہوتا
کارِ دنیا تری خاطر بھلا کر بیٹھے ہیں
کاش تو نے بھی کبھی دنیا کو بھلایا ہوتا
میں نے معشوق تجھے سمجھا تھا معبود نہیں!
میری پیشانی کو سجدے سے اٹھایا ہوتا
صبر کے مشورے سے تو بخدا بہتر تھا
مجھ کو ساقی نے مرے زہر پلایا ہوتا!
یوں تغافل کی روش تو نہ روا رکھتا وہ
اے یگانہ اگر اس نے تجھے چاہا ہوتا!
شکریہ!
الف عین
محمد وارث
یاسر شاہ
محمد تابش صدیقی
محمد خلیل الرحمٰن
سید عاطف علی
محمد ریحان قریشی
ایک خم سے تو نہیں میرا گزارا ہوتا
ظرف ساقی کو مرا تم نے بتایا ہوتا
شبِ فرقت میں قیامت سی تھی گزری مجھ پر
ان کو میں نے یہ بتا کر نہ رلایا ہوتا
تم بھی اے یار! گریباں کو مرے دیکھتے چاک
دنیا میں کوئی بھی درزی جو نہ آیا ہوتا
غیر حالت سے مری، رازِ محبت کھل گیا
بزم میں ناوکِ مژگاں نہ چلایا ہوتا
ہائے دامن پہ مرے سرخ نشاں پڑ گئے ہیں
کاش آنکھوں سے مری خون نہ ٹپکا ہوتا
بے رخی ترکِ محبت کا اشارہ ہی تو تھی
ترک کر دیتے محبت جو یہ سمجھا ہوتا
گرمی بڑھ جاتی مئے ناب کی پھر اے ساقی!
جو نگاہوں سے بھی کچھ اس میں ملایا ہوتا
قتل کرنے کی نہ زحمت تجھے کرنی پڑتی
خود ہی مر جاتے جو ابرو کا اشارہ ہوتا
کارِ دنیا تری خاطر بھلا کر بیٹھے ہیں
کاش تو نے بھی کبھی دنیا کو بھلایا ہوتا
میں نے معشوق تجھے سمجھا تھا معبود نہیں!
میری پیشانی کو سجدے سے اٹھایا ہوتا
صبر کے مشورے سے تو بخدا بہتر تھا
مجھ کو ساقی نے مرے زہر پلایا ہوتا!
یوں تغافل کی روش تو نہ روا رکھتا وہ
اے یگانہ اگر اس نے تجھے چاہا ہوتا!
شکریہ!