فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے
کہیں کوئی ایسا جہاں میں جہاں ہو
جو حسنِ تخیل کا جلوہ کناں ہو
دلِ بے کراں میں رہے دفن حسرت
ضروری نہیں جو چھپا ہے عیاں ہو
فصاحت کا پیکر ہیں چند آنسو اس کے
بیاں ہو وہ کیسے جو ان سے بیاں ہو
چلیں یاس کی آندھیاں دل جلا کر
رہے راکھ باقی، نہ نام و نشاں ہو
وہیں نقش بن کر لپٹ جانا اس سے
جو راہِ عزیمت میں کوہِ گراں ہو
بچے کس طرح زلزلوں ، بجلیوں سے
جو ارض و سما میں گھرا آشیاں ہو
اسے چاند سمجھیں گے سارے ستارے
زمیں پر بھی کوئی اگر کہکشاں ہو
کبھی ساتھ دیتے نہیں فکر کا لفظ
جو منہ میں کسی کے کسی کی زباں ہو
گریں پیڑ سے بوندیں بارش کی ایسے
کہ جیسے کوئی شخص نالہ کناں ہو
لہو یا سیاہی کا فرق اس سے پوچھیں
اگر راست گو اس کا نامہ رساں ہو
اسے استغاثہ کا منصف بنا دو
جو سوزِ محبت کا قانون داں ہو
برے وقت میں کام آنے کا کہہ کر
بہادر عزیزو! چھپے اب کہاں ہو
ق
غزل اہلِ محفل نے ایسے سنی ہے
کہ جیسے طبیعت پر ان کی گراں ہو
کوئی داد کے چند الفاظ کہہ دے
تو شاعر کی محنت نہ یوں رائیگاں ہو
جو حسنِ تخیل کا جلوہ کناں ہو
دلِ بے کراں میں رہے دفن حسرت
ضروری نہیں جو چھپا ہے عیاں ہو
فصاحت کا پیکر ہیں چند آنسو اس کے
بیاں ہو وہ کیسے جو ان سے بیاں ہو
چلیں یاس کی آندھیاں دل جلا کر
رہے راکھ باقی، نہ نام و نشاں ہو
وہیں نقش بن کر لپٹ جانا اس سے
جو راہِ عزیمت میں کوہِ گراں ہو
بچے کس طرح زلزلوں ، بجلیوں سے
جو ارض و سما میں گھرا آشیاں ہو
اسے چاند سمجھیں گے سارے ستارے
زمیں پر بھی کوئی اگر کہکشاں ہو
کبھی ساتھ دیتے نہیں فکر کا لفظ
جو منہ میں کسی کے کسی کی زباں ہو
گریں پیڑ سے بوندیں بارش کی ایسے
کہ جیسے کوئی شخص نالہ کناں ہو
لہو یا سیاہی کا فرق اس سے پوچھیں
اگر راست گو اس کا نامہ رساں ہو
اسے استغاثہ کا منصف بنا دو
جو سوزِ محبت کا قانون داں ہو
برے وقت میں کام آنے کا کہہ کر
بہادر عزیزو! چھپے اب کہاں ہو
ق
غزل اہلِ محفل نے ایسے سنی ہے
کہ جیسے طبیعت پر ان کی گراں ہو
کوئی داد کے چند الفاظ کہہ دے
تو شاعر کی محنت نہ یوں رائیگاں ہو