فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے
انجامِ رند دیکھ کہ رویا نہ کیوں کروں
اس مے کو چھوڑنے کا تہیہ نہ کیوں کروں
دن میں تجھے ہے ڈر کہ مجھے جانتے ہیں لوگ
لیکن میں بزمِ شب میں بھی آیا نہ کیوں کروں
آنکھوں سے درد کی تپش آنے لگے اگر
پلکوں سے غم کی دھوپ میں سایا نہ کیوں کروں
میری خوشی کو دیکھ کے جلتے ہیں جو رقیب
ان دشمنوں کو ہنس کے رلایا نہ کیوں کروں
جس کوچہِ وفا کا فسانہ ابھی سنا
اس شہرِ بے نظیر میں جایا نہ کیوں کروں
آنکھوں سے دل کے راز جو پڑھنے لگا ہے اب
نظریں اس آدمی سے چرایا نہ کیوں کروں
جس بے وفا کی وجہ سے رونق ہے بزم کی
پلکوں پر اپنی اس کو بٹھایا نہ کیوں کروں
ساقی، نہ مے، نہ رند، نہ رنگِ شباب ہے
اس مے کدے کے حال پہ گریہ نہ کیوں کروں
اس مے کو چھوڑنے کا تہیہ نہ کیوں کروں
دن میں تجھے ہے ڈر کہ مجھے جانتے ہیں لوگ
لیکن میں بزمِ شب میں بھی آیا نہ کیوں کروں
آنکھوں سے درد کی تپش آنے لگے اگر
پلکوں سے غم کی دھوپ میں سایا نہ کیوں کروں
میری خوشی کو دیکھ کے جلتے ہیں جو رقیب
ان دشمنوں کو ہنس کے رلایا نہ کیوں کروں
جس کوچہِ وفا کا فسانہ ابھی سنا
اس شہرِ بے نظیر میں جایا نہ کیوں کروں
آنکھوں سے دل کے راز جو پڑھنے لگا ہے اب
نظریں اس آدمی سے چرایا نہ کیوں کروں
جس بے وفا کی وجہ سے رونق ہے بزم کی
پلکوں پر اپنی اس کو بٹھایا نہ کیوں کروں
ساقی، نہ مے، نہ رند، نہ رنگِ شباب ہے
اس مے کدے کے حال پہ گریہ نہ کیوں کروں