برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش۔

جاہل کسی بھی شخص کو دانا نہیں کہتے
اشعار میں بھی ہم تو فسانہ نہیں کہتے

ہم عشق میں پیمانے کے قائل نہیں ساقی
ساغر سے پلانے کو پلانا نہیں کہتے

محفل میں کسی دل سے جو نکلی تھیں صدائیں
بے درد ان آہوں کو تو گانا نہیں کہتے

جن کے دلِ مضطر میں ہے طوفانِ غمِ ہجر
باہر کے وہ موسم کو سہانا نہیں کہتے

سمجھے ہیں جسے لوگ وہی ترکِ تعلق
خط سے فقط الفاظ مٹانا نہیں کہتے

برباد ہوئی شدتِ غم سے یہ جوانی
ہر چیز کی کثرت کو خزانہ نہیں کہتے

چھوٹی سے شبِ وصل کو لمحوں میں گنا کر
کچھ وقت کو اے دوست! زمانہ نہیں کہتے

جھگڑے کی جو بنیاد تھی پھر چھیڑ کے اس کو
بگڑی ہوئی باتوں کا بنانا نہیں کہتے

یہ دل تو نیا تھا جب انھیں ہم نے دیا تھا
ٹوٹی ہوئی چیزوں کو پرانا نہیں کہتے​
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل، صرفِ مطلع میں 'کسی بھی' صرف 'کسبی' تقطیع ہو رہا ہے (یا شاید مفعول فاعلات بحر ہو گئی ہے) اور مفہوم کے اعتبار سے بھی دو لختی محسوس ہوتی ہے
 

فلسفی

محفلین
درست ہے غزل، صرفِ مطلع میں 'کسی بھی' صرف 'کسبی' تقطیع ہو رہا ہے (یا شاید مفعول فاعلات بحر ہو گئی ہے) اور مفہوم کے اعتبار سے بھی دو لختی محسوس ہوتی ہے
شکریہ سر کیا اس طرح ٹھیک ہو گا

ہر شکل کو یونہی رخِ رعنا نہیں کہتے
اشعار میں بھی ہم تو فسانہ نہیں کہتے
 
Top