برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذراش

ہائے وہ سمجھے نہیں اس بات کو
خامشی نے جو کہی تھی رات کو

کون رکھے یاد ساقی کا پتہ
مے بھلا دے جب خود اپنی ذات کو

قبر میں پاؤں دھرے نادانیاں
مر کے چھوڑو گے بری عادات کو؟

رد کرو اک جنبشِ انکار سے
بے وفائی کے سب الزامات کو

آگ اگر پانی سے لگتی ہے تو پھر
گھر میں بیٹھے دیکھتے برسات کو

تذکرہ اس گلبدن کا چھیڑ کر
اور بڑھکاتے ہو کیوں جذبات کو

دین حق کا معجزہ کیا خوب ہے
آسماں تک لے گیا ذرات کو

کون جاتا ہے خود اپنے شوق سے
چھوڑ کا دنیا کی سب لذات کو

دل گرفتہ ہیں مرے اکثر رفیق
جانتے ہیں جو مرے حالات کو

خود سر اک نطفے سے تُو پیدا ہوا
یاد رکھ اپنی حقیر اوقات کو

طیر نے دیکھا قفس کے چاک سے
دور تک پھیلے ہوئے باغات کو

ہار بیٹھا جان کی بازی کوئی
بے وفا کی دیکھ کر بارات کو

بے نیازی کا ہمیں طعنہ نہ دو
اپنی بھی دیکھو ذرا حرکات کو

کاش ان آنکھوں سے ہم بھی دیکھ لیں
اپنے آقا فخرِ موجوداتؐ کو

مرگ کے کھانے پہ ہے جن کی نظر
یاد ہے کیا مرنا ان حضرات کو؟

وقت کے ہاتھوں جو خاکستر ہوئے
دفن رہنے دو اب ان خدشات کو

سامنے منزل ہے تیرے فلسفیؔ
بھول جا تکلیف کے لمحات کو​
 

الف عین

لائبریرین
قبر میں پاؤں دھرے نادانیاں
مر کے چھوڑو گے بری عادات کو؟
بات مکمل نہیں ہو رہی

رد کرو اک جنبشِ انکار سے
بے وفائی کے سب الزامات کو
.. عربی رد میں دال پر شدہ ہے، اگر درست استعمال کرنا چاہو تو
رد کر دو جنبش.. .
کر سکتے ہو ۔ ویسے چل سکتا ہے یوں بھی ۔

آگ اگر پانی سے لگتی ہے تو پھر
گھر میں بیٹھے دیکھتے برسات کو
... دوسرے مصرعے کا صیغہ واضح نہیں 'دیکھیے' کر دیا جائے؟

تذکرہ اس گلبدن کا چھیڑ کر
اور بڑھکاتے ہو کیوں جذبات کو
... بڑھک یا بڑہک دوسرا لفظ ہے بمعنی بڑ ہانکنے کا اسم
یہ شاید بھڑک کی ٹائپو ہے؟

کون جاتا ہے خود اپنے شوق سے
چھوڑ کا دنیا کی سب لذات کو
چھوڑ کر ؟

خود سر اک نطفے سے تُو پیدا ہوا
یاد رکھ اپنی حقیر اوقات کو
.. خود سر کسے کہا جا رہا ہے؟ نطفے کو یا تجھے؟ خودسر کے بعد '!' ضروری محسوس ہوتا ہے

طیر نے دیکھا قفس کے چاک سے
دور تک پھیلے ہوئے باغات کو
.... قفس کا چاک نہیں ہوتا سوراخ کے لیے کچھ دوسرا لفظ استعمال کرو۔ طیر لفظ بھی بول چال میں نہیں آتا

بے نیازی کا ہمیں طعنہ نہ دو
اپنی بھی دیکھو ذرا حرکات کو
..محاورہ تو 'حرکتوں' کا ہے مگر قافیہ ایسا ہے کہ زبردستی فارسی جھاڑنا پڑتی ہے

مرگ کے کھانے پہ ہے جن کی نظر
یاد ہے کیا مرنا ان حضرات کو؟
... مرگ کا کھانا بھی عجیب ہے
دوسرے مصرعے میں مرنا کی الف کا اسقاط اچھا نہیں 'موت' میں کیا قباحت تھی؟
باقی اشعار درست ہیں میرے خیال میں
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
قبر میں پاؤں دھرے نادانیاں
مر کے چھوڑو گے بری عادات کو؟
بات مکمل نہیں ہو رہی
میر خیال تھا کہ بات مکمل ہے۔ کیا اس طرح زیادہ مناسب ہو گا؟
مے کشو! پاؤں دھرے ہیں قبر میں
مر کے چھوڑو گے بری عادات کو؟
رد کرو اک جنبشِ انکار سے
بے وفائی کے سب الزامات کو
.. عربی رد میں دال پر شدہ ہے، اگر درست استعمال کرنا چاہو تو
رد کر دو جنبش.. .
کر سکتے ہو ۔ ویسے چل سکتا ہے یوں بھی ۔
ٹھیک ہے سر
ردّ کر دو جنبشِ انکار سے
آگ اگر پانی سے لگتی ہے تو پھر
گھر میں بیٹھے دیکھتے برسات کو
... دوسرے مصرعے کا صیغہ واضح نہیں 'دیکھیے' کر دیا جائے؟
ٹھیک ہے سر
گھر میں بیٹھے دیکھیے برسات کو
تذکرہ اس گلبدن کا چھیڑ کر
اور بڑھکاتے ہو کیوں جذبات کو
... بڑھک یا بڑہک دوسرا لفظ ہے بمعنی بڑ ہانکنے کا اسم
یہ شاید بھڑک کی ٹائپو ہے؟
جی سر املا کی غلطی ہے :unsure:
اور بھڑکاتے ہو کیوں جذبات کو
کون جاتا ہے خود اپنے شوق سے
چھوڑ کا دنیا کی سب لذات کو
چھوڑ کر ؟
جی سر ٹائیپو ہے :unsure:
چھوڑ کر دنیا کی سب لذات کو
خود سر اک نطفے سے تُو پیدا ہوا
یاد رکھ اپنی حقیر اوقات کو
.. خود سر کسے کہا جا رہا ہے؟ نطفے کو یا تجھے؟ خودسر کے بعد '!' ضروری محسوس ہوتا ہے
جی سر آئندہ خیال رکھو گا
خود سر! اک نطفے سے تُو پیدا ہوا
طیر نے دیکھا قفس کے چاک سے
دور تک پھیلے ہوئے باغات کو
.... قفس کا چاک نہیں ہوتا سوراخ کے لیے کچھ دوسرا لفظ استعمال کرو۔ طیر لفظ بھی بول چال میں نہیں آتا
سر اس میں تردد تو مجھے بھی تھا لیکن "طیر" لفظ دوسرے شعرا کے کلام میں دیکھ کر ہمت ہوئی تھی۔ مثلا میر کا یہ شعر
اک خزاں میں نہ طیر بھی بولا
میں چمن میں بہت پکار آیا

"چاکِ قفس" بھی کہیں دیکھا تھا اس لیے "قفس کا چاک" استعمال کیا جیسے میر ہی کا ایک شعر اسی فورم پر ہے

کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
چاکِ قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا

گستاخی کی معافی چاہتا فقط سیکھنے کی نیت سے گزارشات رکھی ہیں آپ کے سامنے۔ دو متبادل یہ ذہن میں ہیں، اب جیسا آپ فرمائیں

رو دیے چاکِ قفس سے دیکھ کر
طائرانِ خوش نوا باغات کو
یا
دیکھتے ہیں روزنِ زندان سے
حیف اسیرانِ قفس باغات کو
بے نیازی کا ہمیں طعنہ نہ دو
اپنی بھی دیکھو ذرا حرکات کو
..محاورہ تو 'حرکتوں' کا ہے مگر قافیہ ایسا ہے کہ زبردستی فارسی جھاڑنا پڑتی ہے
سر "حرکات" کی جگہ عادات استعمال ہو سکتا ہے؟
مرگ کے کھانے پہ ہے جن کی نظر
یاد ہے کیا مرنا ان حضرات کو؟
... مرگ کا کھانا بھی عجیب ہے
دوسرے مصرعے میں مرنا کی الف کا اسقاط اچھا نہیں 'موت' میں کیا قباحت تھی؟
سر "مرگ کا کھانا" میرے خیال میں تو مستعمل ہے۔ "مرگ" کی وجہ سے "مرنا" زیادہ مناسب لگ رہا تھا۔ حمزہ وصل کی وجہ سے غلط فہمی تھی کہ "مرنا ان" ٹھیک رہے گا۔ خیر کیا یہ مناسب رہے گا یا اس کو غزل بدر کردیں؟

مرگ پر بھی دیگ جن کو چاہیے
یاد ہے کیا موت ان حضرات کو
 

الف عین

لائبریرین
مے کشو! پاؤں دھرے ہیں قبر میں
مر کے چھوڑو گے بری عادات کو؟
... مے کشو ہی کیوں؟ میری تجویز
پاؤں تو دیکھو! دھرے ہیں قبر میں

چاک قفس کے لیے میر کی سند ہے تو قبول کر رہا ہوں یہ بہتر ہے
رو دیے چاکِ قفس سے دیکھ کر
طائرانِ خوش نوا باغات کو

حرکات ہی چلنے دو، عادات سے بہتر ہے

مرگ شاید تمہاری طرف بولا جاتا ہو، یہاں میت، موتیٰ کا کھانا بولا جاتا ہے۔ اگر مرگ مستعمل ہے تو وہی شعر درست ہے
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
مے کشو! پاؤں دھرے ہیں قبر میں
مر کے چھوڑو گے بری عادات کو؟
... مے کشو ہی کیوں؟ میری تجویز
پاؤں تو دیکھو! دھرے ہیں قبر میں
سر یہ کیسا رہے گا
عاصیو! پاؤں دھرے ہیں قبر میں

چاک قفس کے لیے میر کی سند ہے تو قبول کر رہا ہوں یہ بہتر ہے
رو دیے چاکِ قفس سے دیکھ کر
طائرانِ خوش نوا باغات کو
ٹھیک ہے سر
حرکات ہی چلنے دو، عادات سے بہتر ہے
ٹھیک ہے سر
مرگ شاید تمہاری طرف بولا جاتا ہو، یہاں میت، موتیٰ کا کھانا بولا جاتا ہے۔ اگر مرگ مستعمل ہے تو وہی شعر درست ہے
سر بہتر تو میت اور موتیٰ ہی ہے۔ مرگ بھی استعمال تو ہوتا ہے لیکن مجھے خدشہ ہے کہ شاید غلط استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو غزل بدر ہی کردیتا ہوں۔
 

فلسفی

محفلین
عاصیو کے ساتھ بھی مذکورہ شعر بہتر ہو جائے گا
باقی اشعار درست ہیں تبدیلیوں کے بعد
شکریہ سر اصلاح کے بعد غزل حاضر ہے

ہائے وہ سمجھے نہیں اس بات کو
خامشی نے جو کہی تھی رات کو

کون رکھے یاد ساقی کا پتہ
مے بھلا دے جب خود اپنی ذات کو

عاصیو! پاؤں دھرے قبر میں
مر کے چھوڑو گے بری عادات کو؟

ردّ کر دو جنبشِ انکار سے
بے وفائی کے سب الزامات کو

آگ اگر پانی سے لگتی ہے تو پھر
گھر میں بیٹھے دیکھیے برسات کو

تذکرہ اس گلبدن کا چھیڑ کر
اور بھڑکاتے ہو کیوں جذبات کو

دین حق کا معجزہ کیا خوب ہے
آسماں تک لے گیا ذرات کو

کون جاتا ہے خود اپنے شوق سے
چھوڑ کر دنیا کی سب لذات کو

دل گرفتہ ہیں مرے اکثر رفیق
جانتے ہیں جو مرے حالات کو

خود سر! اک نطفے سے تُو پیدا ہوا
یاد رکھ اپنی حقیر اوقات کو

رو دیے چاکِ قفس سے دیکھ کر
طائرانِ خوش نوا باغات کو

ہار بیٹھا جان کی بازی کوئی
بے وفا کی دیکھ کر بارات کو

بے نیازی کا ہمیں طعنہ نہ دو
اپنی بھی دیکھو ذرا حرکات کو

کاش ان آنکھوں سے ہم بھی دیکھ لیں
اپنے آقا فخرِ موجوداتؐ کو

وقت کے ہاتھوں جو خاکستر ہوئے
دفن رہنے دو اب ان خدشات کو

سامنے منزل ہے تیرے فلسفیؔ
بھول جا تکلیف کے لمحات کو​
 
Top