فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش۔
ہو کے دوچار عبرت کے انجام سے / رو برو ہو کے عبرت کے انجام سے
دل بری ہو گیا ہر اک الزام سے
بے یقینی ہے دل میں جو ابہام سے
کچھ تعلق نہیں اس کا الہام سے
کشمکش دیکھتے ہیں مرے ضبط کی
وہ جو پہلو میں بیٹھے ہیں آرام سے
آ رہی ہے رقیبوں کے لہجے کی بُو
خط میں لکھے ہوئے ان کے پیغام سے
بزمِ شب پھر کسی اور دن دوستو!
آج آئے ہوئے ہیں وہ گھر شام سے
ان کا محفل میں آنا ضروری نہیں
خوف کھاتے ہیں جو حرفِ دشنام سے
اخترانِ فلک ماند پڑنے لگے
اک ستارہ جو ابھرا سرِ بام سے
حاسدوں کے دلوں پر چلیں قینچیاں
جب پکارا انھوں نے مجھے نام سے
خلوتیں چھوڑ کر تجھ کو جانا پڑا
فلسفیؔ ان کی محفل میں کس کام سے
دل بری ہو گیا ہر اک الزام سے
بے یقینی ہے دل میں جو ابہام سے
کچھ تعلق نہیں اس کا الہام سے
کشمکش دیکھتے ہیں مرے ضبط کی
وہ جو پہلو میں بیٹھے ہیں آرام سے
آ رہی ہے رقیبوں کے لہجے کی بُو
خط میں لکھے ہوئے ان کے پیغام سے
بزمِ شب پھر کسی اور دن دوستو!
آج آئے ہوئے ہیں وہ گھر شام سے
ان کا محفل میں آنا ضروری نہیں
خوف کھاتے ہیں جو حرفِ دشنام سے
اخترانِ فلک ماند پڑنے لگے
اک ستارہ جو ابھرا سرِ بام سے
حاسدوں کے دلوں پر چلیں قینچیاں
جب پکارا انھوں نے مجھے نام سے
خلوتیں چھوڑ کر تجھ کو جانا پڑا
فلسفیؔ ان کی محفل میں کس کام سے
آخری تدوین: