برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش۔

ہو کے دوچار عبرت کے انجام سے / رو برو ہو کے عبرت کے انجام سے
دل بری ہو گیا ہر اک الزام سے

بے یقینی ہے دل میں جو ابہام سے
کچھ تعلق نہیں اس کا الہام سے

کشمکش دیکھتے ہیں مرے ضبط کی
وہ جو پہلو میں بیٹھے ہیں آرام سے

آ رہی ہے رقیبوں کے لہجے کی بُو
خط میں لکھے ہوئے ان کے پیغام سے

بزمِ شب پھر کسی اور دن دوستو!
آج آئے ہوئے ہیں وہ گھر شام سے

ان کا محفل میں آنا ضروری نہیں
خوف کھاتے ہیں جو حرفِ دشنام سے

اخترانِ فلک ماند پڑنے لگے
اک ستارہ جو ابھرا سرِ بام سے

حاسدوں کے دلوں پر چلیں قینچیاں
جب پکارا انھوں نے مجھے نام سے

خلوتیں چھوڑ کر تجھ کو جانا پڑا
فلسفیؔ ان کی محفل میں کس کام سے​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع میں پہلا متبادل ہی بہتر ہے
ابہام الہام والے قوافی اگر حسن مطلع نہ بنائیں تو بہتر ہے کہ ایطا کا احساس ہوتا ہے الفاظ کی نشست بدل دو جیسے
دل میں ابہام سے بے یقینی تھی جو

اک ستارہ جو ابھرا سرِ بام سے
محض سر بام کافی ہوتا ہے اس کے ساتھ 'سے' لگانا غلط محاورہ ہے
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
مطلع میں پہلا متبادل ہی بہتر ہے
ٹھیک ہے سر
ابہام الہام والے قوافی اگر حسن مطلع نہ بنائیں تو بہتر ہے کہ ایطا کا احساس ہوتا ہے الفاظ کی نشست بدل دو جیسے
دل میں ابہام سے بے یقینی تھی جو
ٹھیک ہے سر
اک ستارہ جو ابھرا سرِ بام سے
محض سر بام کافی ہوتا ہے اس کے ساتھ 'سے' لگانا غلط محاورہ ہے
سر کیا "لبِ بام سے" ٹھیک رہے گا۔
 

فلسفی

محفلین
سر الف عین ، گستاخی معاف کچھ اشعار میں لبِ بام استعمال ہوا ہے کیا ان کی بنیاد پر میں بھی استعمال کر سکتا ہوں۔


اس لب بام سے اے صرصر فرقت تو بتا
مثل تنکے کے مرا یہ تن لاغر پھینکا
(عبدالرحمان احسان دہلوی)

دیکھے کہیں مجھ کو تو لب بام سے ہٹ جائے
اس وضع سے اس کی مرا دل کیونکہ نہ پھٹ جائے
(محمد امان نثار)

ویسے متبادل کے طور پر ان میں سے کوئی مناسب ہے؟

ایک تارہ ابھرنے لگا بام سے
یا
اک ستارہ ابھرنے لگا بام سے
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
لب بام سے ہٹنا، گر جانا وغیرہ درست ہے لیکن ابھرنا قبول نہیں
کج فہمی کی معافی چاہتا ہوں سر۔

اک ستارہ... بہترین ہے
ٹھیک ہے سر۔ اصلاح کے بعد غزل حاضر ہے۔

ہو کے دوچار عبرت کے انجام سے
دل بری ہو گیا ہر اک الزام سے

دل میں ابہام سے بے یقینی تھی جو
کچھ تعلق نہیں اس کا الہام سے

کشمکش دیکھتے ہیں مرے ضبط کی
وہ جو پہلو میں بیٹھے ہیں آرام سے

آ رہی ہے رقیبوں کے لہجے کی بُو
خط میں لکھے ہوئے ان کے پیغام سے

بزمِ شب پھر کسی اور دن دوستو!
آج آئے ہوئے ہیں وہ گھر شام سے

ان کا محفل میں آنا ضروری نہیں
خوف کھاتے ہیں جو حرفِ دشنام سے

اخترانِ فلک ماند پڑنے لگے
اک ستارہ ابھرنے لگا بام سے

حاسدوں کے دلوں پر چلیں قینچیاں
جب پکارا انھوں نے مجھے نام سے

خلوتیں چھوڑ کر تجھ کو جانا پڑا
فلسفیؔ ان کی محفل میں کس کام سے​
 
Top