برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے۔

میرے مطلب کی دے مجھ کو رائے کوئی
ہاں وہی جس کو سمجھا نہ ہائے کوئی

زیست کی تشنگی کو مٹائے کوئی
میرے لب سے لبوں کو لگائے کوئی
(دوسرا مصرع اگر حد سے تجاوز کے زمرے میں آتا ہے تو اس کا متبادل ایک یہ ہےکہ
آبِ عشق اب لبوں سے لگائے کوئی )

کیوں بدل کر حضور ان کے مفہوم کو
میرے لفظوں کے معنی بتائے کوئی

جس فراموش گھر کا مکیں ہوں میں اب
بھول کر ہی وہاں آج آئے کوئی

جان دے کر چھڑانا پڑے گی یہ جان
دل کو ورنہ کہاں تک ستائے کوئی

میری میت کے اے منتظر دوستو!
یہ پڑا ہے جنازہ اٹھائے کوئی

جم رہا ہے رگوں میں لہو مثلِ ثَلْج (برف)
ایسی سردی میں کیسے نہائے کوئی

ارضِ دل میں گناہوں کی کثرت ہوئی
اب وہاں پر بھی محشر اٹھائے کوئی

لوگ غفلت کے چادر لیے سو گئے
نیند گہری ہے ، ان کو جگائے کوئی

اب حصولِ یقیں کے لیے فلسفیؔ
تیرے سر کی قسم کیوں اٹھائے کوئی؟​
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
میرے لب سے.... بھی قابل قبول ہے
شکریہ سر میں سمجھ رہا تھا کہیں کوئی اعتراض ہی نہ کردے۔
لیکن مثلِ ثلج نہیں برف کہنے میں کیا حرج ہے؟
بس ایسے ہی دل کر رہا تھا کہ کوئی غیر معمولی لفظ ساتھ لگایا جائے۔ :) ویسے تو برف بھی بحر میں ہے۔ اس لیے برف ہی کر دیتا ہوں۔
 
Top