فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذراش۔
ہجر کاٹا رات بھر، وصل تو اک خواب تھا
جو گزرنے کے لیے، اس قدر بیتاب تھا
دشتِ حسرت میں پھرے، دھول چاٹی عمر بھر
خشک آنکھوں میں مگر، آس کا سیلاب تھا
ساقی اب تُو ہی بتا، رند بے بس کیا کریں
میکدے کے ظرف میں، مے نہیں تھی آب تھا
یاس کا کیا فائدہ، نا خدا! ناؤ سنبھال
پھنس نہ جائے یہ کہیں، دامنِ گرداب تھا
بے رخی کی وجہ سے، کھو دیا میں نے جسے
اب کہاں ڈھونڈوں اسے، دوست جو نایاب تھا
روز ملنے کے لیے، وہ مجھے آتی وہاں
جس گلی کے سامنے، چھوٹا سا تالاب تھا
میں فراقِ یار میں، مر گیا ہوتا مگر
زہر کھانے کے لیے، شہر میں کم یاب تھا
دیکھ آنکھیں کھول کر، عمرِ رفتہ کی طرف
چار دن کی زندگی، مختصر سا خواب تھا
جو گزرنے کے لیے، اس قدر بیتاب تھا
دشتِ حسرت میں پھرے، دھول چاٹی عمر بھر
خشک آنکھوں میں مگر، آس کا سیلاب تھا
ساقی اب تُو ہی بتا، رند بے بس کیا کریں
میکدے کے ظرف میں، مے نہیں تھی آب تھا
یاس کا کیا فائدہ، نا خدا! ناؤ سنبھال
پھنس نہ جائے یہ کہیں، دامنِ گرداب تھا
بے رخی کی وجہ سے، کھو دیا میں نے جسے
اب کہاں ڈھونڈوں اسے، دوست جو نایاب تھا
روز ملنے کے لیے، وہ مجھے آتی وہاں
جس گلی کے سامنے، چھوٹا سا تالاب تھا
میں فراقِ یار میں، مر گیا ہوتا مگر
زہر کھانے کے لیے، شہر میں کم یاب تھا
دیکھ آنکھیں کھول کر، عمرِ رفتہ کی طرف
چار دن کی زندگی، مختصر سا خواب تھا