برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش۔

جو مثلِ غم ملا ہے
وفاؤں کا صلہ ہے

بظاہر خوش ہے وہ شخص
جسے خود سے گلہ ہے

نئے رشتوں کے پیچھے
پرانا سلسلہ ہے

چمن اجڑا ہوا تھا
تو گل کیسے کھلا ہے

ابھی کچھ دور ہو تم
ابھی کچھ فاصلہ ہے

وہی رہزن ہے شاید
جو میرِ قافلہ ہے

نہ چھیڑو زخمِ دل کو
بڑی مشکل سِلا ہے

محبت بے وفا سے
خطائے قاتلہ ہے

تم اس کے ساتھ کیوں ہو
ہمیں جس سے گلہ ہے

(اس شعر میں کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوں کہ بحر اور قافیہ کے مطابق غزل میں آسکتا ہے یا نہیں)
ہے بس اللہ دل میں
زباں پر لا الہ ہے​
 

الف عین

لائبریرین
پہلے اس کی بات
ہے بس اللہ دل میں
زباں پر لا الہ ہے
باقی قوافی میں ہ کا اعلان نہیں، الف کی آواز ہی ہے۔ لیکن الہ الف کی آواز کے ساتھ بے معنی ہے۔ اس لیے شعر غلط ہے
باقی غزل درست ہے لیکن
نہ چھیڑو زخمِ دل کو
بڑی مشکل سِلا ہے
... مشکل سے سلا ہے درست جملہ ہوتا۔ یا بمشکل ہی کافی ہو جائے گا
بمشکل یہ سلا ہے
درست ہو گا

محبت بے وفا سے
خطائے قاتلہ ہے
یہ سمجھ نہیں سکا، خطا تو عاشق کی ہو گی نا!
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
پہلے اس کی بات
ہے بس اللہ دل میں
زباں پر لا الہ ہے
باقی قوافی میں ہ کا اعلان نہیں، الف کی آواز ہی ہے۔ لیکن الہ الف کی آواز کے ساتھ بے معنی ہے۔ اس لیے شعر غلط ہے
ٹھیک ہے سر اسی بات کا کھٹکا تھا۔
باقی غزل درست ہے لیکن
نہ چھیڑو زخمِ دل کو
بڑی مشکل سِلا ہے
... مشکل سے سلا ہے درست جملہ ہوتا۔ یا بمشکل ہی کافی ہو جائے گا
بمشکل یہ سلا ہے
درست ہو گا
ٹھیک ہے سر
محبت بے وفا سے
خطائے قاتلہ ہے
یہ سمجھ نہیں سکا، خطا تو عاشق کی ہو گی نا!
جی عاشق کی ہی ہے۔ یعنی کسی بے وفا سے محبت ایک ایسی خطا ہے جو عاشق کے لیے قاتلہ ہے۔
 
Top