وصل کے محل مزارات ہوئے جاتے ہیں
خواب آنکھوں میں خیالات ہوئے جاتے ہیں
دل کی بستی جو بسائی، تو نے میں نے
گلستاں اس کے بھی کھنڈرات ہوئے جاتے ہیں
کب، کہاں، کیسے، یہاں کون بچھڑ جائے گا
یوں میرے ملک کے حالات ہوئے جاتے ہیں
مخلوقِ اشرف کے دامن میں ہے قحطِ الفاظ
زیست کے ایسے سوالات ہوئے جاتے ہیں
پسِ دیوارِ جرم یہ قیامت ڈھانے والے
کیسے یوں معتبر حضرات ہوئے جاتے ہیں
تیری کج ادائی کے مرہونِ منت جاناں
دفن اب میرے بھی جذبات ہوئے جاتے ہیں
خواب آنکھوں میں خیالات ہوئے جاتے ہیں
دل کی بستی جو بسائی، تو نے میں نے
گلستاں اس کے بھی کھنڈرات ہوئے جاتے ہیں
کب، کہاں، کیسے، یہاں کون بچھڑ جائے گا
یوں میرے ملک کے حالات ہوئے جاتے ہیں
مخلوقِ اشرف کے دامن میں ہے قحطِ الفاظ
زیست کے ایسے سوالات ہوئے جاتے ہیں
پسِ دیوارِ جرم یہ قیامت ڈھانے والے
کیسے یوں معتبر حضرات ہوئے جاتے ہیں
تیری کج ادائی کے مرہونِ منت جاناں
دفن اب میرے بھی جذبات ہوئے جاتے ہیں