سید احسان

محفلین
※ غزل برائے اصلاح ※

وہ اگر میرا ہم سفر ہوتا
میرا خالی مکاں بھی گھر ہوتا

خون روئیں نہ گر مری آنکھیں
نخل دل میرا بے ثمر ہوتا

ہاتھ تھامے۔ مرا وہ کب چلتا
میرے کل سے جو با خبر ہوتا

دوست ہوتے نہ اشک آنکھوں کے
رائیگاں زیست کا سفر ہوتا

جان لیتا یہ راز ہستی بھی
کاش میں صاحب نظر ہوتا

زیست میری شب فراق سہی
نام اس کا اگر سحر ہوتا

رات اپنی سکون سے کٹتی
میرے زانو پہ اس کا سر ہوتا

اب تو احسان کی یہ خواہش ہے
تیرے بندوں کا ہم سفر ہوتا

(سید احسان الحق )
 
آخری تدوین:

سید احسان

محفلین
تمام واجب الاحترام اساتذہ سے گزارش ہے کہ میری راہنمائی کریں ۔ اصلاح کے لیے حاضر ہوں
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے

وہ اگر میرا ہم سفر ہوتا
میرا خالی مکاں بھی گھر ہوتا
.. خوب

خون روئیں نہ گر مری آنکھیں
نخل دل میرا بے ثمر ہوتا
... خون روتیں... کہا جائے تو مفہوم کے اعتبار سے بہتری محسوس ہوتی ہے

ہاتھ تھامے۔ مرا وہ کب چلتا
میرے کل سے جو با خبر ہوتا
... واضح نہیں ہوا، تھامے مرا میں 'میں میں' کی تکرار محسوس ہوتی ہے الفاظ بدل دیں

دوست ہوتے نہ اشک آنکھوں کے
رائیگاں زیست کا سفر ہوتا
.. درست

جان لیتا یہ راز ہستی بھی
کاش میں صاحب نظر ہوتا
.... درست

زیست میری شب فراق سہی
نام اس کا اگر سحر ہوتا
.. کس کا نام؟ واضح نہیں

رات اپنی سکون سے کٹتی
میرے زانو پہ اس کا سر ہوتا
.. درست

اب تو احسان کی یہ خواہش ہے
تیرے بندوں کا ہم سفر ہوتا
.. خطاب کس سے ہے؟ اللہ سے؟
 

سید احسان

محفلین
الف عین
سر آپ کے التفات پر جی خوش ہوا۔ آپ کی طرف سے کی گئی اصلاح پر عمل کروں گا۔ آپ کا بے حد شکریہ

بذیل تبدیلیاں اگر کی جائیں تو آپ کیا کہیں گے سر !

زیست میری شب فراق سہی
نام تیرا اگر سحر ہوتا

ساتھ میرا وہ آج کب دیتا
میرے کل سے جو باخبر ہوتا


مقطع میں عاجز اللہ سے ہی مخاطب ہے

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
زیست میری شب فراق سہی
نام تیرا اگر سحر ہوتا
اب بھی ابلاع نہیں ہوتا
مقطع بھی واضح نہیں
 
Top