برائے اصلاح

گرچہ اٌس نے وفا نہیں کی
ہم نے پر بد دعا نہیں کی

ایک ہی تھی نشانی اس کی
درد کی سو دوا نہیں کی

دل تڑپتا رہا ہمارا
ہم نے پر التجا نہیں کی

عشق میں ہم نے قیس کی طرح
حیف ہے انتہا نہیں کی

وہ محبت ہو یا عبادت
کبھی ہم نے ریا نہیں کی

بخش دینا کے حق تھا جیسا
بندگی وہ خدا نہیں کی
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات، ۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ مبتدیوں کو عروضی تجربات سے اجتناب کرنا چاہیے
اس زمین میں محض 'ہے' کے اضافے سے مستعمل بحر بن جاتی ہے یعنی 'نہیں کی ہے' یا ایک بہتر متبادل 'کبھی نہیں کی' ہو سکتا ہے
موجودہ شکل میں
عشق میں ہم نے قیس کی طرح
طرح کا تلفظ درست نہیں، طرحا تلفظ کرنے سے مستعمل بحر بن جاتی ہے
اس کا دوسرا مصرع بے معنی ہے

کبھی ہم نے ریا نہیں کی
ریا مذکر ہے

بندگی وہ خدا نہیں کی
بے معنی ہے
 
پہلی بات، ۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ مبتدیوں کو عروضی تجربات سے اجتناب کرنا چاہیے
اس زمین میں محض 'ہے' کے اضافے سے مستعمل بحر بن جاتی ہے یعنی 'نہیں کی ہے' یا ایک بہتر متبادل 'کبھی نہیں کی' ہو سکتا ہے
موجودہ شکل میں
عشق میں ہم نے قیس کی طرح
طرح کا تلفظ درست نہیں، طرحا تلفظ کرنے سے مستعمل بحر بن جاتی ہے
اس کا دوسرا مصرع بے معنی ہے

کبھی ہم نے ریا نہیں کی
ریا مذکر ہے

بندگی وہ خدا نہیں کی
بے معنی ہے
بہت شکریہ
جی یہ غیر مستعمل بحر فعلن کے بجائے فع آتاہے
آپ کے تجاویز پر عمل کرتے ہوئے مستعمل بحر پر لکھنے کو کوشش کرتا ہوں
شکریہ!
 
Top