برائے اصلاح

الف عین صاحب
عظیم صاحب



اپنے اب اجداد کی جاگیر کھینچ
رشک-فردوس-بریں کشمیر کھینچ

آئے گا کوئی نہیں امداد کو
خود ہی اپنے پاوں سے زنجیر کھینچ

تیرگی ڈھونڈے کہیں ڈر کے پناہ
اپنے یوں جذبات کی تنویر کھینچ

چھن گئی سر سے ترے دستار جو
زندہ ہے تو اب وہی توقیر کھینچ

ہے رگوں میں تیری خون-حیدری
جوش میں آ، ہاتھ میں شمشیر کھینچ

سب جہاں دیتا رہے تیری مثال
تو جواں مردی کی وہ تصویر کھینچ

قسمت و تقدیر ہے تابع ترے
دست-ہمت سے تو خود تقدیر کھینچ

آہیں ہی کب ہیں علامت عشق کی
عشق-صادق ہے تو جوئے شیر کھینچ

حرف اتریں ہر کسی کے قلب میں
ایسی اے جذب -جنوں تاثیر کھیںچ

دست-ہمت سے تو اپنے خاکسار
خود فلک پر کوکب تقدیر کھینچ
 

الف عین

لائبریرین
پہلے چاروں اشعار میں ردیف کھینچ درست استعمال ہوئی نہیں لگ رہی ۔ یہی بات مقطع میں بھی ہے، درمیانی اشعار میں استعمال درست ہے
 
Top