برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین
تُو کیا غبارِ دل کو ظاہر نہیں کرے گا؟
بس پھر انا بچے گی رشتہ نہیں بچے گا

تُو میری جاں ہے لیکن یہ بھی میں جانتا ہوں
تُو ماسوائے حسرت کچھ بھی نہیں رہے گا

ہم سب ہی رائگاں ہیں یعنی جہاں میں ہم بن
سب چل رہا ہے جیسے ویسے ہی سب چلے گا

تم سے بچھڑ کے بھی میں زندہ رہوں گا لیکن
اکثر یہ ہوگا کچھ بھی اچھا نہیں لگے گا

کچھ دن مجھے تمھاری بے حد طلب رہے گی
کچھ دن کے بعد مجھ میں کچھ بھی نہیں رہے گا

جب تک کہ زندگی کی صورت بنے گی کوئی
تب تک تو زندگی کا چہرہ بگڑ چکے گا

نقشِ خیال میں یہ منظر جدائی کا ہے
میں روکتا رہوں گا اور تُو نہیں رکے گا

جیسا بھی حالِ دل ہو اس کو ثبات کب ہے
یعنی کہ کوئی خوش بھی کب تک بھلا رہے گا

فیضان مجھکو ایسا ہمدم تلاشنا ہے
جو مجھ سے صرف میری باتیں کیا کرے گا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع اور دوسرا شعر سمجھ نہیں سکا کہ واضح نہیں
آخری شعر، مقطع، میں تلاشنا کی بجائے 'کو ڈھونڈنا' کر دو
باقی درست ہیں
 

فیضان قیصر

محفلین
مطلع اور دوسرا شعر سمجھ نہیں سکا کہ واضح نہیں
آخری شعر، مقطع، میں تلاشنا کی بجائے 'کو ڈھونڈنا' کر دو
باقی درست ہیں
بہت شکریہ سر مطلع اگر یوں کہیں تو

اے دل اگر تُو ضد پر یوں ہی ڈٹا رہے گا
بس پھر انا بچے گی رشتہ نہیں بچے گا

یا

تو پھر انا بچے گی رشتہ نہیں بچے گا


مجھکو یہ بد گمانی ایامِ وصل سے تھی
تُو ما سوائے حسرت کچھ بھی نہیں ریے گا


فیضان مجھکو ایسے ہمدم کو دھونڈھنا ہے
جو مجھ سے صرف میری باتیں کیا کرے گا

اور سر اگر یہ اشعار یوں کہیں تو

ہم سب ہی رائگاں ہیں یعنی ہمارے بن بھی
سب چل رہا ہے جیسے ویسے ہی سب چلے گا

دو چار دن تو دل میں تیری طلب رہے گی
پھر اسکے بعد مجھ میں کچھ بھی نہیں رہے گا
 
آخری تدوین:
بہت شکریہ سر - آپ ناصرف میری بلکہ یہاں سب ہی کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی فرماتے نظر آتے ہیں - اللہ آپ کو خوش رکھے سلامت رہیں
ارے بھئی اب یہ سر تو نہ کہیں، ہمیں یونہی بڑھاپے کا احساس ہوتا ہے :)
 

فیضان قیصر

محفلین
ارے بھئی اب یہ سر تو نہ کہیں، ہمیں یونہی بڑھاپے کا احساس ہوتا ہے :)
سر تو انگریزوں کی عطا ہے جس کو وہ عزت دینا چاہتے تھے- تو سر کا خطاب دے دیا کرتے تھے - ہم نے بھی آپ کے لیے ان ہی معنوں میں استعمال کیا ہے - جہاں تک عمر کی بات ہے تو دل ہونا چاہیے جوان - ماہ و سال کے حساب و کتاب میں کیا دھرا ہے
 

فیضان قیصر

محفلین
بہت شکریہ سر مطلع اگر یوں کہیں تو

اے دل اگر تُو ضد پر یوں ہی ڈٹا رہے گا
بس پھر انا بچے گی رشتہ نہیں بچے گا

یا

تو پھر انا بچے گی رشتہ نہیں بچے گا


مجھکو یہ بد گمانی ایامِ وصل سے تھی
تُو ما سوائے حسرت کچھ بھی نہیں ریے گا


فیضان مجھکو ایسے ہمدم کو دھونڈھنا ہے
جو مجھ سے صرف میری باتیں کیا کرے گا

اور سر اگر یہ اشعار یوں کہیں تو

ہم سب ہی رائگاں ہیں یعنی ہمارے بن بھی
سب چل رہا ہے جیسے ویسے ہی سب چلے گا

دو چار دن تو دل میں تیری طلب رہے گی
پھر اسکے بعد مجھ میں کچھ بھی نہیں رہے گا
محمد
سر تو انگریزوں کی عطا ہے جس کو وہ عزت دینا چاہتے تھے- تو سر کا خطاب دے دیا کرتے تھے - ہم نے بھی آپ کے لیے ان ہی معنوں میں استعمال کیا ہے - جہاں تک عمر کی بات ہے تو دل ہونا چاہیے جوان - ماہ و سال کے حساب و کتاب میں کیا دھرا ہے
راحل صاحب یہاں بھی اپنی رائے سے نواز دیں
 
حضور اس غزل کی بابت تو عاجز اظہار رائے پہلے ہی کر چکا۔ استاد محترم کی نظر تو وہاں تک جاتی ہے جہاں ہم جیسے طفلان مکتب کی رسائی نہیں وگرنہ سچی بات تو یہ ہے غزل مجھے تو اپنی پہلی صورت میں بھی (بجز تلاشنا) پسند آئی تھی :)
 

فیضان قیصر

محفلین
حضور اس غزل کی بابت تو عاجز اظہار رائے پہلے ہی کر چکا۔ استاد محترم کی نظر تو وہاں تک جاتی ہے جہاں ہم جیسے طفلان مکتب کی رسائی نہیں وگرنہ سچی بات تو یہ ہے غزل مجھے تو اپنی پہلی صورت میں بھی (بجز تلاشنا) پسند آئی تھی :)
جی راحل صاحب درست فرما رہے ہیں - مگر کچھ تصیح کی تھی میں نے - اس کی بابت استاد مترم کوئی رائے سامنے نہیں آئی - آپ کا مشورہ مل جائے گا تو اطمینان ہوجائے گا


اے دل اگر تُو ضد پر یوں ہی ڈٹا رہے گا
بس پھر انا بچے گی رشتہ نہیں بچے گا

یا

تو پھر انا بچے گی رشتہ نہیں بچے گا


مجھکو یہ بد گمانی ایامِ وصل سے تھی
تُو ما سوائے حسرت کچھ بھی نہیں ریے گا


فیضان مجھکو ایسے ہمدم کو دھونڈھنا ہے
جو مجھ سے صرف میری باتیں کیا کرے گا

اور سر اگر یہ اشعار یوں کہیں تو

ہم سب ہی رائگاں ہیں یعنی ہمارے بن بھی
سب چل رہا ہے جیسے ویسے ہی سب چلے گا

دو چار دن تو دل میں تیری طلب رہے گی
پھر اسکے بعد مجھ میں کچھ بھی نہیں رہے
 
فیضان صاحب آداب!

اے دل اگر تُو ضد پر یوں ہی ڈٹا رہے گا
بس پھر انا بچے گی رشتہ نہیں بچے گا

یا

تو پھر انا بچے گی رشتہ نہیں بچے گا
میرے خیال میں پہلی صورت بہتر ہے۔ دوسری صورت میں "تو" کا طویل کھنچنا پسندیدہ نہیں ہے۔
علاوہ ازیں، پہلے مصرعے میں ضد پر ڈٹا ہونا محاورے کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ ضد پر اڑنا درست محاورہ ہے۔ ضد پر اڑا رہے گا کہیں تو بھی وزن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

مجھکو یہ بد گمانی ایامِ وصل سے تھی
تُو ما سوائے حسرت کچھ بھی نہیں ریے گا
مجھے تو درست لگ رہا ہے۔

فیضان مجھکو ایسے ہمدم کو دھونڈھنا ہے
جو مجھ سے صرف میری باتیں کیا کرے گا

سچی بات یہ ہے کہ مصرعہ ثانی میں "گا" زائد لگ رہا ہے، کیونکہ اصل مدعا تو "مجھ سے میری باتیں کیا کرے" پر ختم ہوجاتا ہے اور روزمرہ میں بولا بھی پونہی جاتا ہے۔ ممکن ہے ردیف کی بندش کی وجہ قبول کیا جاسکتا ہو۔ اس پر استاذی ہی درست رائے دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک نکتہ یہ بھی اٹھ سکتا ہے کہ یہ شعر تو عاشق کی خود پسندی کو ظاہر کررہا ہے جو ہمارے کلاسیکی عشق میں عیب سمجھا جاتا ہے۔ بہرکیف، یہ تو اینے اپنے ذوق کی بات ہے۔ عین ممکن ہے کسی اور کو یہ بات محسوس نہ ہو۔

ہم سب ہی رائگاں ہیں یعنی ہمارے بن بھی
سب چل رہا ہے جیسے ویسے ہی سب چلے گا
یوں تو شعر درست ہے، اور "ہمارے" کی ی کا اسقاط بھی کوئی خاص ناگوار نہیں محسوس ہورہا، البتہ شعر پڑھ کر توجہ فورا غالب کے شعر کی جانب مبذول ہوجاتی ہے
غالب خستہ کے بغیر، کون سے کام بند ہیں

دو چار دن تو دل میں تیری طلب رہے گی
پھر اسکے بعد مجھ میں کچھ بھی نہیں رہے
اچھا شعر ہے ماشاءاللہ۔ بس "دل میں تیری طلب" فصاحت کے خلاف لگتا ہے، اس کو "دل کو تیری طلب" کردیں۔

دعاگو،
راحل۔
 

فیضان قیصر

محفلین
فیضان صاحب آداب!


میرے خیال میں پہلی صورت بہتر ہے۔ دوسری صورت میں "تو" کا طویل کھنچنا پسندیدہ نہیں ہے۔
علاوہ ازیں، پہلے مصرعے میں ضد پر ڈٹا ہونا محاورے کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ ضد پر اڑنا درست محاورہ ہے۔ ضد پر اڑا رہے گا کہیں تو بھی وزن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔


مجھے تو درست لگ رہا ہے۔



سچی بات یہ ہے کہ مصرعہ ثانی میں "گا" زائد لگ رہا ہے، کیونکہ اصل مدعا تو "مجھ سے میری باتیں کیا کرے" پر ختم ہوجاتا ہے اور روزمرہ میں بولا بھی پونہی جاتا ہے۔ ممکن ہے ردیف کی بندش کی وجہ قبول کیا جاسکتا ہو۔ اس پر استاذی ہی درست رائے دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک نکتہ یہ بھی اٹھ سکتا ہے کہ یہ شعر تو عاشق کی خود پسندی کو ظاہر کررہا ہے جو ہمارے کلاسیکی عشق میں عیب سمجھا جاتا ہے۔ بہرکیف، یہ تو اینے اپنے ذوق کی بات ہے۔ عین ممکن ہے کسی اور کو یہ بات محسوس نہ ہو۔


یوں تو شعر درست ہے، اور "ہمارے" کی ی کا اسقاط بھی کوئی خاص ناگوار نہیں محسوس ہورہا، البتہ شعر پڑھ کر توجہ فورا غالب کے شعر کی جانب مبذول ہوجاتی ہے
غالب خستہ کے بغیر، کون سے کام بند ہیں


اچھا شعر ہے ماشاءاللہ۔ بس "دل میں تیری طلب" فصاحت کے خلاف لگتا ہے، اس کو "دل کو تیری طلب" کردیں۔

دعاگو،
راحل۔


بہت شکریہ راحل بھائی آپ کی محبت اور عنایت کا ۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے
 
Top