برائے اصلاح

السلام وعلیکم!
اساتذہ کرام و اراکینِ بزم سے گزارش ہے کہ میرے اِس کلام کی اصلاح فرمائیں:


جو زمانے تیرے دیدار کی حسرت میں گئے
قلبِ مضطر کی قسم ایک قیامت میں گئے

وہ جو لمحے تیرے لفظوں کی سماعت میں گئے
یہ وہ لمحاتِ زندگی ہیں جو راحت میں گئے

وہ جو اوقاتِ شب و روز ترے بِن گزرے
باخُدا گزرے! مگر یاس و کراہت میں گئے

خاکِ پروانہ سے پوچھو تپشِ لو کیا ہے
ذرہ ذرہ یہ پُکارے ہے کہ چاہت میں گئے

کارگر ہوئے مگر صرف کارگر ہی نہیں
ماہرِ فن ہوئے جو تیری سنگت میں گئے

اویسؔ بھولا ہے اور نہ ہی کبھی بھولے گا
وہ دیقیقے جو فقط تیری رفاقت میں گئے

محمد اویسؔ شیروانی
 
مکرمی اویسؔ صاحب، تسلیمات

امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے۔ آپ کی غزل دیکھی، جو خیالات کے اعتبار سے اچھی لگی، تاہم کئی مقامات پر آپ سے عروضی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جن سے اجتناب لازم ہے۔ آپ اس سلسلے میں عروض کی ویب گاہ (http://aruuz.com) سے مدد لے سکتے ہیں۔ مطلعے سے جو بحر قائم ہو رہی ہے اس کا پورا نام تو رمل مثمن سالم مخبون محذوف ہے (اگر کوئی اور بحر استعمال کی گئی ہے تو معذرت، میں اس کی شناخت نہیں کر پار رہا)، مگر نام میں کیا رکھا ہے صاحب! اصل بات یہ ہے کہ آپ بحر کا نقشہ یاد رکھیں، جو یوں ہے
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن (یہاں پہلے رکن میں فا کے مقابل فَ بھی لانا جائز ہے اور آخری رکن میں ع ساکن اور متحرک، دونوں جائز ہیں)۔ آپ کا مطلع ہے

جو زمانے تیرے دیدار کی حسرت میں گئے
قلبِ مضطر کی قسم ایک قیامت میں گئے

اب اگر اس کی تقطیع کریں تو صورتحال کچھ یوں بنتی ہے

جُ زَ ما نے تے رِ دی دا ر کِ حس رت م گَ اے
ف/فا ع لا تن ف ع لا تن ف ع لا تن ف ع لن
قل بِ مظ طر کِ ق سم اے ک ق یا مت م گَ اے۔

آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ مصرعہ اولیٰ میں جہاں آپ نے ’’تیرے‘‘ باندھا ہے وہ ہجائے کوتاہ یعنی چھوٹی آواز کا مقام ہے، سو تیرے لکھنے کی وجہ سے مصرعہ وزن میں پورا نہیں، اور بحر سے خارج ہورہا ہے۔
بعینہ یہی صورت حسنِ مطلع کے پہلے مصرعے میں بھی موجود ہے۔ ان دونوں مقامات پر آپ اگر ’تیرے‘ کو ’’ترے‘‘ کردیں گے تو مصرعے وزن میں پورے ہوجائیں گے۔ ہاں حسنِ مطلع کا مصرعہ ثانی اب بھی بحر سے خارج ہے، آپ اس کی تقطیع خود کرکے دیکھیں۔

وہ جو اوقاتِ شب و روز ترے بِن گزرے
باخُدا گزرے! مگر یاس و کراہت میں گئے
اچھا ہے!

خاکِ پروانہ سے پوچھو تپشِ لو کیا ہے
ذرہ ذرہ یہ پُکارے ہے کہ چاہت میں گئے
مجھے یہ شعر دولخت محسوس ہورہا ہے، ممکن ہے میرے فہم کا نقص ہو۔

کارگر ہوئے مگر صرف کارگر ہی نہیں
ماہرِ فن ہوئے جو تیری سنگت میں گئے
دونوں مصرعے بحر سے خارج ہیں۔ دوئم یہ کہ مصرعۂ ثانی میں ردیف ٹھیک طرح نہیں نبھ رہی، یہاں مقام ’’سنگت میں رہے‘‘ کا محسوس ہورہا ہے۔ خیر، ردیف شاید پھر بھی قابل قبول ہو، مگر وزن تو بہر حال درستی چاہتا ہے۔

اویسؔ بھولا ہے اور نہ ہی کبھی بھولے گا
وہ دیقیقے جو فقط تیری رفاقت میں گئے

یہاں بھی پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ اویسؔ کو آپ پہلے رکن کے مقابل نہیں لا سکتے کیونکہ رکن اول میں دوسرا ہجا چھوٹی آواز کا محل ہے، جبکہ اویسؔ کے و اور ی میرے خیال میں حروف ہائے صحیح ہیں، نہ کہ معلول،سو ان کو تقطیع میں لازم شمار کیا جائے گا۔
دوسرے مصرعے میں دقیقے کا استعمال بمعنی لمحات بہت کرخت محسوس ہورہا ہے۔ اگرعربی سے ہی مستعار لینا ہے تو پھر جمع بھی عربی قاعدے پر بنائیں جو دقائق بنے گی۔ اسکے علاوہ دوسرے مصرعے میں ردیف نبھانا بھی دشوار ہورہا ہے کیونکہ وقت کی اکائیوں کے ساتھ ’’گزرنا‘‘ بطور محاورہ استعمال ہوتا ہے (ممکن ہے تاثر بھی میری کم علمی کے سبب ہو)۔ خیر، مقطعے کو یوں سوچ کر دیکھیں۔

بھول سکتا ہے کبھی اور نہ بھولے گا اویسؔ
وہ سبھی دن جو فقط تیری رفاقت میں گئے

امید ہے آپ نے میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ میں بھی دیگر کی طرح محض ایک مبتدی ہوں، بس باہمی تبادلۂ خیال کی نیت سے ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہوں۔

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:
مکرمی اویسؔ صاحب، تسلیمات

امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے۔ آپ کی غزل دیکھی، جو خیالات کے اعتبار سے اچھی لگی، تاہم کئی مقامات پر آپ سے عروضی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جن سے اجتناب لازم ہے۔ آپ اس سلسلے میں عروض کی ویب گاہ (http://aruuz.com) سے مدد لے سکتے ہیں۔ مطلعے سے جو بحر قائم ہو رہی ہے اس کا پورا نام تو رمل مثمن سالم مخبون محذوف ہے (اگر کوئی اور بحر استعمال کی گئی ہے تو معذرت، میں اس کی شناخت نہیں کر پار رہا)، مگر نام میں کیا رکھا ہے صاحب! اصل بات یہ ہے کہ آپ بحر کا نقشہ یاد رکھیں، جو یوں ہے
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن (یہاں پہلے رکن میں فا کے مقابل فَ بھی لانا جائز ہے اور آخری رکن میں ع ساکن اور متحرک، دونوں جائز ہیں)۔ آپ کا مطلع ہے



اب اگر اس کی تقطیع کریں تو صورتحال کچھ یوں بنتی ہے

جُ زَ ما نے تے رِ دی دا ر کِ حس رت م گَ اے
ف/فا ع لا تن ف ع لا تن ف ع لا تن ف ع لن
قل بِ مظ طر کِ ق سم اے ک ق یا مت م گَ اے۔

آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ مصرعہ اولیٰ میں جہاں آپ نے ’’تیرے‘‘ باندھا ہے وہ ہجائے کوتاہ یعنی چھوٹی آواز کا مقام ہے، سو تیرے لکھنے کی وجہ سے مصرعہ وزن میں پورا نہیں، اور بحر سے خارج ہورہا ہے۔
بعینہ یہی صورت حسنِ مطلع کے پہلے مصرعے میں بھی موجود ہے۔ ان دونوں مقامات پر آپ اگر ’تیرے‘ کو ’’ترے‘‘ کردیں گے تو مصرعے وزن میں پورے ہوجائیں گے۔ ہاں حسنِ مطلع کا مصرعہ ثانی اب بھی بحر سے خارج ہے، آپ اس کی تقطیع خود کرکے دیکھیں۔


اچھا ہے!


مجھے یہ شعر دولخت محسوس ہورہا ہے، ممکن ہے میرے فہم کا نقص ہو۔


دونوں مصرعے بحر سے خارج ہیں۔ دوئم یہ کہ مصرعۂ ثانی میں ردیف ٹھیک طرح نہیں نبھ رہی، یہاں مقام ’’سنگت میں رہے‘‘ کا محسوس ہورہا ہے۔ خیر، ردیف شاید پھر بھی قابل قبول ہو، مگر وزن تو بہر حال درستی چاہتا ہے۔



یہاں بھی پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ اویسؔ کو آپ پہلے رکن کے مقابل نہیں لا سکتے کیونکہ رکن اول میں دوسرا ہجا چھوٹی آواز کا محل ہے، جبکہ اویسؔ کے و اور ی میرے خیال میں حروف ہائے صحیح ہیں، نہ کہ معلول،سو ان کو تقطیع میں لازم شمار کیا جائے گا۔
دوسرے مصرعے میں دقیقے کا استعمال بمعنی لمحات بہت کرخت محسوس ہورہا ہے۔ اگرعربی سے ہی مستعار لینا ہے تو پھر جمع بھی عربی قاعدے پر بنائیں جو دقائق بنے گی۔ اسکے علاوہ دوسرے مصرعے میں ردیف نبھانا بھی دشوار ہورہا ہے کیونکہ وقت کی اکائیوں کے ساتھ ’’گزرنا‘‘ بطور محاورہ استعمال ہوتا ہے (ممکن ہے تاثر بھی میری کم علمی کے سبب ہو)۔ خیر، مقطعے کو یوں سوچ کر دیکھیں۔

بھول سکتا ہے کبھی اور نہ بھولے گا اویسؔ
وہ سبھی دن جو فقط تیری رفاقت میں گئے

امید ہے آپ نے میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ میں بھی دیگر کی طرح محض ایک مبتدی ہوں، بس باہمی تبادلۂ خیال کی نیت سے ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہوں۔

دعاگو،
راحلؔ

بہت شکریہ جناب! آپ نے اپنا وقت صَرف کیا اور مجھ کم علم کے کلام کے نقائص کی نشاندہی کی۔۔ بہت ممنون آپ کا۔۔
دراصل میں علمِ عروض سے تقریباََ نابلد ہوں۔۔ آپ نے جہاں جہاں اصلاح فرمائ اور جس طرح فرمائ مجھے بے حد مسرت ہوئ۔۔ اور میں نے تمام اغلاط اپنے پاس محفوظ بھی کرلی ہیں ۔۔۔ انشاء اللہ عزوجل آپ اور دیگر احباب سے گاہے بگاہے رہنمائ حاصل کرتا رہوں گا۔۔
حضرت علمِ عروض پر کوئ جامع کتاب کا نام بھی بتادیجیئے تاکہ میں مزید علمِ عروض حاصل کرسکوں۔۔
جزاکم اللہ خیراََ کثیرا
 
بہت شکریہ جناب! آپ نے اپنا وقت صَرف کیا اور مجھ کم علم کے کلام کے نقائص کی نشاندہی کی۔۔ بہت ممنون آپ کا۔۔
دراصل میں علمِ عروض سے تقریباََ نابلد ہوں۔۔ آپ نے جہاں جہاں اصلاح فرمائ اور جس طرح فرمائ مجھے بے حد مسرت ہوئ۔۔ اور میں نے تمام اغلاط اپنے پاس محفوظ بھی کرلی ہیں ۔۔۔ انشاء اللہ عزوجل آپ اور دیگر احباب سے گاہے بگاہے رہنمائ حاصل کرتا رہوں گا۔۔
حضرت علمِ عروض پر کوئ جامع کتاب کا نام بھی بتادیجیئے تاکہ میں مزید علمِ عروض حاصل کرسکوں۔۔
جزاکم اللہ خیراََ کثیرا

برادرم اویسؔ، آداب
عروض سیکھنے میں آپ کی دلچسپی یقیناً لائقِ تحسین اور خوش آئند ہے۔ اللہ پاک آپ کے علمی سفر کو آسان بنائے۔ بنیادی عروض سیکھنے کے لئے آپ قبلہ و استاذی جناب سرور عالم رازؔ صاحب کی کتاب ’’آسان عروض اور نکات شاعری‘‘ سے استفادہ کرسکتے ہیں جو ان کی ویب گاہ پر موجود ہے، ربط ذیل میں دے رہا ہوں۔
http://www.sarwarraz.com/books/KitaabArooz.pdf
عروض پر اس سے سادہ اور آسان فہم کتاب شاید ہی کوئی ہو۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اس کتاب کا عرق ریزی سے مطالعہ کریں۔ اس کے بعد آپ بہت حد تک اپنے اشعار کی درست تقطیع کرنے پر قادر ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ جناب یعقوب آسیؔ صاحب کی شہرہ آفاق کتاب ’’فاعلات‘‘ بھی انٹرنیٹ پر باآسانی دستیاب ہے۔ تاہم آسیؔ صاحب علم عروض میں اپنے کچھ تفردات اور اجتہادات کے لئے بھی جانے جاتے ہیں، سو میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ پہلے سرور عالم رازؔ صاحب کی کتاب کا مطالعہ کریں۔
یادرکھیں کہ اچھی شاعری کے لئے صرف عروض کا علم ہی کافی نہیں، اس کے علاوہ بھی کئی جہات ہیں جہاں توجہ کرنا نہایت ضروری ہے، علمِ قافیہ ان میں سرفہرست ہے۔ یہ شاعری کا ایک ایسا میدان ہے جس میں میرے آپ کے جیسے تقریباً سب ہی مبتدی سب سے زیادہ غلطیاں کرتے ہیں۔ سو جب آپ استاذی رازؔ صاحب کی کتاب کا مطالعہ اچھی طرح کرچکیں تو ان کی ویب سائیٹ پر شاعری کے حوالے سے ان کے دیگر مضامین بھی لازماً پڑھیئے گا، جو سب کے سب نہایت عام فہم زبان میں لکھے گئے ہیں۔ جب بنیاد تھوڑی پختہ ہو جائے تو پھر مولانا حسرت موہانیؒ کی نکات سخن، اور حضرت شمس الرحمٰن فاروقی کی درس بلاغت مزید مطالعے کے لئے مفید رہیں گی۔

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:
برادرم اویسؔ، آداب
عروض سیکھنے میں آپ کی دلچسپی یقیناً لائقِ تحسین اور خوش آئند ہے۔ اللہ پاک آپ کے علمی سفر کو آسان بنائے۔ بنیادی عروض سیکھنے کے لئے آپ قبلہ و استاذی جناب سرور عالم رازؔ صاحب کی کتاب ’’آسان عروض اور نکات شاعری‘‘ کے استفادہ کرسکتے ہیں جو ان کی ویب گاہ پر موجود ہے، ربط ذیل میں دے رہا ہوں۔
http://www.sarwarraz.com/books/KitaabArooz.pdf
عروض پر اسے سادہ اور آسان فہم کتاب شاید ہی کوئی ہو۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اس کتاب کا عرق ریزی سے مطالعہ کریں۔ اس کے بعد آپ بہت حد تک اپنے اشعار کی درست تقطیع کرنے پر قادر ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ جناب یعقوب آسیؔ صاحب کی شہرہ آفاق کتاب ’’فاعلات‘‘ بھی انٹرنیٹ پر باآسانی دستیاب ہے۔ تاہم آسیؔ صاحب علم عروض میں اپنے کچھ تفردات اور اجتہادات کے لئے بھی جانے جاتے ہیں، سو میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ پہلے سرور عالم رازؔ صاحب کی کتاب کا مطالعہ کریں۔
یادرکھیں کہ اچھی شاعری کے لئے صرف عروض کا علم ہی کافی نہیں، اس کے علاوہ بھی کئی جہات ہیں جہاں توجہ کرنا نہایت ضروری ہے، علمِ قافیہ ان میں سرفہرست ہے۔ یہ شاعری کا ایک ایسا میدان ہے جس میں میرے آپ کے جیسے تقریباً سب ہی مبتدی سب سے زیادہ غلطیاں کرتے ہیں۔ سو جب آپ استاذی رازؔ صاحب کی کتاب کا مطالعہ اچھی طرح کرچکیں تو ان کی ویب سائیٹ پر شاعری کے حوالے سے ان کے دیگر مضامین بھی لازماً پڑھیئے گا، جو سب کے سب نہایت عام فہم زبان میں لکھے گئے ہیں۔ جب بنیاد تھوڑی پختہ ہو جائے تو پھر مولانا حسرت موہانیؒ کی نکات سخن، اور حضرت شمس الرحمٰن فاروقی کی درس بلاغت مزید مطالعے کے لئے مفید رہیں گی۔

دعاگو،
راحلؔ

جزاک اللہ۔۔۔ اللہ آپ کے علم میں مزید وسعت عطا فرمائے۔۔ اور دنیا و آخرت کی بلندیاں نصیب فرمائے۔۔ آمین۔
آپ کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔۔۔ اور انشاء اللہ ان کتب اور مضامین کا ضرور مطالعہ کروں گا اور ضرورت بڑی تو آپ کو پھر یاد فرماؤں گا۔۔ اللہ آپ کو بہترین اجر دے۔۔ آمین
 
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
جو زمانے تھے یونہی دیدار کی حسرت میں گئے
قلبِ مضطر کی قسم ایک قیامت میں گئے
----------
راحل بھائی سیکھنے کے لئے عرض کر رہا ہوں ۔اگر مطلع کو اس طرح کر دیا جائے تو کیا تقطیع کے لحاظ سے ٹھیک ہو گا
 
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
جو زمانے تھے یونہی دیدار کی حسرت میں گئے
قلبِ مضطر کی قسم ایک قیامت میں گئے
----------
راحل بھائی سیکھنے کے لئے عرض کر رہا ہوں ۔اگر مطلع کو اس طرح کر دیا جائے تو کیا تقطیع کے لحاظ سے ٹھیک ہو گا
جناب ارشدؔ صاحب، آداب!
پہلا مصرعہ اب بھی وزن میں نہیں ہے، اس میں ’’تھے‘‘ زائد ہے۔

فا ع لا تن ف ع لا تن ف ع لا تن ف ع لن
جو ز ما نے تِ یُ ہی دی دا

یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں، رکنِ ثالث میں ’ف‘ کے مقابل دیدار کا ’’دا‘‘ آرہا ہے، جو درست نہیں۔

دعاگو،
راحلؔ
 
Top