یہاں تو دونوں مصرعوں میں پہلا لفظ فا کے وزن پر ہی ہے (بحر: فاعلاتن مفاعلن فعلن)
فا ع لا تن
ہم ہ وے تم
فا ع لا تن
اس ک زل فو
اسی طرح یہاں دونوں مصرعوں میں پہلا رکن فعلاتن ہی قائم کیا گیا ہے (فعلاتن مفاعلن فعلن)
ف ع لا تن
ن ہِ آ تے
ہُ کِ عا شق
یہاں مجھے بھی رہنمائی درکار ہے، کیونکہ اگر پہلے مصرعے فاعلاتن پر تقطیع کریں تو ل کے کسرۂ اضافت کو الگ آواز شمار کرنا پڑتا ہے۔ ویسے اگر غالبؔ نے برتا ہے تو سند ہی ہونا چاہیئے مگر ممکن ہے دیگر اساتذہ اسے غالبؔ کا تفرد سمجھتے ہوں؟
فا ع لا تن
دل ِ نا دا
آ خ رس در
یہاں بھی رہنمائی درکار ہے۔ ممکن ہے یہ بھی مومنؔ کے تفردات میں سے ہو یا پھر تقطیع کی کوئی صورت ہو جو ہمارے علم میں نہیں۔
دعاگو،
راحلؔ
تبصرے کے لیے بہت بہت شکریہ
میں شاید تقطیع غلط کر رہا ہوں گا۔۔میں نے اوپر اظہار بھی کیا تھا کہ شاید میں غلط سمجھ رہا ہوں گا۔
میر کے مطلع میں فاعلاتن ہی آ رہا وہ ساتھ اس لیے لکھا تھا کہ دوسرے شعر میں فعلاتن ہے۔لیکن ایک مصرعے کی تقطیع میں فعلاتن اور دوسرے کی فا علاتن کر رہا تھا۔
دلِ ناداں کی تقطیع میں فعلاتن رہا تھا ممکن ہے کوئی اور صورت ہو۔
اث رس کو۔ فعلاتن
اس کی تقطیع میں کچھ یوں کر رہا ہوں۔
مجھے خود رہنمائی کی ضرورت ہے ۔یہ اشعار کی مثالیں دینے کا مقصد اپنے اشکالات کو دور کرنا اور علم میں اضافے کا تھا۔
آخر رکن فعلن کو جیسے فَعِلن کر سکتے ہیں۔یعنی کبھی ع ساکن کبھی متحرک اسی طرح فاعلاتن کا فعلاتن بھی کر سکتے ییں کچھ بحور میں نے شاید کہیں پڑھا تھا۔
میر کی غزل کو سامنے رکھا جائے تو مطلع میں فاعلاتن ہے دوسرے شعر میں فعلاتن تو یہ اجازت مل نہیں گئی کے اس بحر میں آپ فاعلاتن کو فعلاتن سے بدل سکتے ہیں.
آپ کا بہت بہت شکریہ۔
امید ہے آپ رہنمائی فرمائیں گے۔