برائے اصلاح

گرچہ عدو سے پتھر کھائے سرکارِ دو عالم نے
ہاتھ دعا کو پھر بھی اٹھائے سرکارِ دو عالم نے

چرواہے سردار بنائے سرکارِ دو عالم نے
کچھ ایسے اسلوب سکھائے سرکارِ دو عالم نے

دل سے خار نکالے سارے،نفرت اور عداوت کے
الفت کے پھر پھول کھلائے سرکارِ دو عالم نے

شاہ تھے گرچہ شاہوں کے،پر عمر گزاری غربت میں
کپڑوں کو پیوند لگائے سرکارِ دو عالم نے

کیوں نہ لٹائیں جانیں اپنی،کیوں نہ بہائیں خوں اپنا
اشک ہمارے لیے تھےبہائے،سرکارِ دو عالم نے

بیماروں کی عیادت کی اورناداروں سے سخاوت کی
کمزوروں کے بوجھ اٹھائے،سرکار دو عالم نے

سب انگشت بدنداں تھے، کیسے انگلی کے اشارے سے
چاند کے ٹکڑے کر کے دکھائے،سرکارِ دس عالم نے
 
آخری تدوین:
ماشاء اللہ بہت خوب نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہی ہے۔

الفت کے پھر پھول اگائے سرکارِ دو عالم نے
اس مصرعے میں پھول اگائے کے بجائے پھول کھلائے کہنے میں کیا حرج ہے؟

کیوں نہ لٹائیں جانیں اپنی،کیوں نہ بہائیں خوں اپنا
اپنے لیے تھے اشک بہائے،سرکارِ دو عالم نے
یہاں فاعل واضح نہ ہونے کی وجہ سے بیان تھوڑا الجھ رہا ہے۔ خصوصا دوسرے مصرعے میں "اپنے لئے" کی نسبت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہونے کا شائبہ ہوسکتا ہے۔ میرے خیال میں اس شعر پر نظر ثانی کرلیں تو بہتر ہے۔

بیماروں کی عیادت کی،ناداروں سے سخاوت کی
کمزوروں کے بوجھ اٹھائے،سرکار دو عالم نے

پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہوتا محسوس ہورہا ہے، رواں تو یقینا نہیں۔ سے اور سخاوت کے مابین تنافر بھی نمایاں ہورہا ہے۔
دوسرے مصرعے میں بوجھ کے بجائے بار استعمال کریں تو بہتر رہے گا۔ بوجھ سے ساتھ واحد کا صیغہ زیادہ مناسب رہتا ہے۔

امید ہے آپ نے میرے ملاحظات کا برا نہیں مانا ہوگا۔

دعاگو،
راحل۔
 
ماشاء اللہ بہت خوب نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہی ہے۔


اس مصرعے میں پھول اگائے کے بجائے پھول کھلائے کہنے میں کیا حرج ہے؟


یہاں فاعل واضح نہ ہونے کی وجہ سے بیان تھوڑا الجھ رہا ہے۔ خصوصا دوسرے مصرعے میں "اپنے لئے" کی نسبت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہونے کا شائبہ ہوسکتا ہے۔ میرے خیال میں اس شعر پر نظر ثانی کرلیں تو بہتر ہے۔



پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہوتا محسوس ہورہا ہے، رواں تو یقینا نہیں۔ سے اور سخاوت کے مابین تنافر بھی نمایاں ہورہا ہے۔
دوسرے مصرعے میں بوجھ کے بجائے بار استعمال کریں تو بہتر رہے گا۔ بوجھ سے ساتھ واحد کا صیغہ زیادہ مناسب رہتا ہے۔

امید ہے آپ نے میرے ملاحظات کا برا نہیں مانا ہوگا۔

دعاگو،
راحل۔
بہت بہت شکریہ محترم راحل صاحب
آپ کی تمام باتوں سے مکمل اتفاق ہے
اگائے کو کھلائے کر دیتا ہوں
اپنے لیے تھے اشک۔۔۔۔۔
اس مصرع میں اپنے والی آپ کی بات بلکل درست ہے۔
اس کا مطلب یوں بھی لیا جا سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لیے اشک بہائے۔

محترم الف عین صاحب نے تجویز دے کر مسئلہ حل کر دیا ہے۔
اشک ہمارے لیے تھے بہائے سرکار دو عالم نے

بیماروں کی عیادت کی اور ناداروں سے سخاوت کی

او ر رہ گیا تھا کس کی وجہ سے بے بحر ہو گیا تھا۔
لیکن تنافر والا مسئلہ موجود ہے
متبادل سوچتا ہوں ہو آپ بھی رہنمائی فرمائیں۔

برا منانے والی بات نہیں بلکہ میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ہاں !برا مناؤں گا جب آپ رہنمائی فرمانا چھوڑ دیں گے۔

منت پذیر
عمران کمال
 
میرے خیال میں مذکورہ مصرعے کے افاعیل یہ بنیں گے؟
فعْل فعولن فَعَل فعولن فعْلن فعْلن فعْلن فع
اش ک | فع ل
ہ ما رے | ف عو لن
ل اے | ف عل
ب ہا اے | ف عو لن
سر کا | فع لن
رے دو | فع لن
عا لم | فع لن
نے | فع
 
میرے خیال میں مذکورہ مصرعے کے افاعیل یہ بنیں گے؟
فعْل فعولن فَعَل فعولن فعْلن فعْلن فعْلن فع
اش ک | فع ل
ہ ما رے | ف عو لن
ل اے | ف عل
ب ہا اے | ف عو لن
سر کا | فع لن
رے دو | فع لن
عا لم | فع لن
نے | فع
بہت بہت شکریہ
جی یہی بننتے ہیں سمجھ گیا ہوں۔
بہت نوازش
 
Top