برائے اصلاح

الف عین صاحب

جو شاہی دفاتر میں دستور بناتے ہیں
افلاس کے ماروں کو دن رات جلاتے ہیں

مقتول !ترے گھر جو ،اب اشک بہاتے ہیں
قاتل ہیں یہی تیرے یہ راز چھپاتے ہیں

دنیا میں وہی سارے ،ہیں امن کے رکھوالے
غارت گری کا جو خود، بازار لگاتے ہیں

آتی ہے منہ سے ان کے ، مزدور کے خوں کی بو
مزدور سے الفت کے ،جو گیت سناتے ہیں

برسات میں اکثر چھت ،مفلس کی ٹپکتی ہے
لیکن امرا سارے بس عیش اڑاتے ہیں

افسوس مجھے شکوہ ارباب-سخن سے ہے
بیگانوں کے جو نغمے ،ہر وقت سناتے ہیں

خاموش رہو عابد غماز تباہی ہے
اظہار تو کر دے گی جو لوگ چھپاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
یہ غزل جس مترنم بحر میں ہے، اس کے ترنم کے لیے ضروری ہے کہ الفاظ کا اسقاط کم ہو۔ اور اس وجہ سے روانی متاثر ہو گئی ہے

جو شاہی دفاتر میں دستور بناتے ہیں
افلاس کے ماروں کو دن رات جلاتے ہیں
..... ٹھیک

مقتول !ترے گھر جو ،اب اشک بہاتے ہیں
قاتل ہیں یہی تیرے یہ راز چھپاتے ہیں
... مقتول سے خطاب کی ضرورت؟
مقتول کے گھر آ کر جو اشک بہاتے ہیں
خود اصل میں قاتل ہیں، یہ راز چھپاتے ہیں
اگرچہ اس سے لگتا ہے کہ بہت سے قاتلوں نے مل کر قتل کیا ہے!

دنیا میں وہی سارے ،ہیں امن کے رکھوالے
غارت گری کا جو خود، بازار لگاتے ہیں
... گری کی ی کا اسقاط گراں گزرتا ہے

آتی ہے منہ سے ان کے ، مزدور کے خوں کی بو
مزدور سے الفت کے ،جو گیت سناتے ہیں
.... پہلا مصرع بحر سے خارج بلکہ مفعول فاعلاتن ہو گیا ہے جب کہ یہاں بحر مفعول مفاعیلن کے افاعیل ہیں۔ دوسرا مصرع بے معنی محسوس ہوتا ہے

برسات میں اکثر چھت ،مفلس کی ٹپکتی ہے
لیکن امرا سارے بس عیش اڑاتے ہیں
... روانی متاثر ہے

افسوس مجھے شکوہ ارباب-سخن سے ہے
بیگانوں کے جو نغمے ،ہر وقت سناتے ہیں
... بیگانوں کے نغمے؟ سمجھ نہیں سکا

خاموش رہو عابد غماز تباہی ہے
اظہار تو کر دے گی جو لوگ چھپاتے ہیں
.. یہ بھی عجزِ بیان ہے
 
یہ غزل جس مترنم بحر میں ہے، اس کے ترنم کے لیے ضروری ہے کہ الفاظ کا اسقاط کم ہو۔ اور اس وجہ سے روانی متاثر ہو گئی ہے

جو شاہی دفاتر میں دستور بناتے ہیں
افلاس کے ماروں کو دن رات جلاتے ہیں
..... ٹھیک

مقتول !ترے گھر جو ،اب اشک بہاتے ہیں
قاتل ہیں یہی تیرے یہ راز چھپاتے ہیں
... مقتول سے خطاب کی ضرورت؟
مقتول کے گھر آ کر جو اشک بہاتے ہیں
خود اصل میں قاتل ہیں، یہ راز چھپاتے ہیں
اگرچہ اس سے لگتا ہے کہ بہت سے قاتلوں نے مل کر قتل کیا ہے!

دنیا میں وہی سارے ،ہیں امن کے رکھوالے
غارت گری کا جو خود، بازار لگاتے ہیں
... گری کی ی کا اسقاط گراں گزرتا ہے

آتی ہے منہ سے ان کے ، مزدور کے خوں کی بو
مزدور سے الفت کے ،جو گیت سناتے ہیں
.... پہلا مصرع بحر سے خارج بلکہ مفعول فاعلاتن ہو گیا ہے جب کہ یہاں بحر مفعول مفاعیلن کے افاعیل ہیں۔ دوسرا مصرع بے معنی محسوس ہوتا ہے

برسات میں اکثر چھت ،مفلس کی ٹپکتی ہے
لیکن امرا سارے بس عیش اڑاتے ہیں
... روانی متاثر ہے

افسوس مجھے شکوہ ارباب-سخن سے ہے
بیگانوں کے جو نغمے ،ہر وقت سناتے ہیں
... بیگانوں کے نغمے؟ سمجھ نہیں سکا

خاموش رہو عابد غماز تباہی ہے
اظہار تو کر دے گی جو لوگ چھپاتے ہیں
.. یہ بھی عجزِ بیان ہے
بہت نوازش سر

ان کے منہ سے آتی ہے مزدور کے خوں کی بو
مزدور سے الفت کے جو گیت سناتے ہیں

سر میں جو کہنا چاہتا جو مزدور کے حقوق کی بات کرتے ہیں فی زمانہ اصل میں وہی مزدور کا خون چوستے ہیں عملی طور پر۔۔ کارخانوں وغیرہ میں
 
Top