برائے اصلاح

Muhammad Ishfaq

محفلین
غم کی وادی
دشمن نےاخیر کر دیا ہے
لہو سے کشمیر تر کیا ہے
ظلم وستم کی انتہاکرکے
پیمانہ صبر کا بھر دیا ہے
جنت جیسی وادی کو
قید میں تبدیل کر دیا ہے
خوراک اور دوا بند کر کے
انسانیت کا نیچاسرکیاہے
ظلمت کی کالی رات نے
ہر گھر میں گھر کیا ہے
ڈر ہے کہیں چلی نہ جائے
آزادی کو زنجیر کر دیا ہے
قراردادوں کوسبوتاژکرکے
ڈسٹ بنِ میں دَھر دیا ہے
معاہدے کو توڑ کر اس نے
کشمیر کا حصہ کر لیا ہے
اب آزادی کے متوالوں نے
باندھ کفن سر لیا ہے
آخری حد تک لڑیں گے ہم
خود سے وعدہ کر لیا ہے
سلام ہےمیراان ماِِؤں کو
جنہوں نے صبر کر لیا ہے
اپنے نو جواں بیٹو ں کو
آزادی کی نذر کر دیا ہے
اقوام عالم دیکھ رہا ہے
کسی نے نہ درد سر لیا ہے
سن کر حال اس وادی کا
دل اپنا غم گیں کر لیا ہے,,
 

الف عین

لائبریرین
یہ غزل کی شکل میں لگتی ہے لیکن ردیف قوافی کیا ہیں، یہ سمجھ میں نہیں اتا۔ اسے آزاد نظم بنا دیں تو شاید قبول کی جا سکے
 
Top