فیضان قیصر
محفلین
بن ترے جو بھی زندگی ہوگی
مستقل اس میں اک کمی ہوگی
تیرے دم سے ہے روشنی گھر میں
تو نہیں ہو تو تیرگی ہوگی
اس لیے سب ترے مخالف تھے
تو نے انکی نہیں سنی ہوگی
تم جو گم سم اداس رہتے ہو
اس طرح کیسے نوکری ہوگی
ایک ہی موڈ ہوگا بن تیرے
مستقل دل کو بے کلی ہوگی
ٹیس جس کی نہیں گئی اب تک
بات دل سے کہی گئی ہوگی
خاتمہ داستاں کا یوں ہوگا
وہ مرے دل میں مر چکی ہوگی
غم زدوں کو ہے جس نے مارا وہ
غم نہیں غم کی آگہی ہوگی
دل نہ بہلے گا اس تسلی سے
صبر کر اس میں بہتری ہوگی
مجھ کو فیضان خوش گمانی ہے
وہ مری راہ دیکھتی ہوگی
مستقل اس میں اک کمی ہوگی
تیرے دم سے ہے روشنی گھر میں
تو نہیں ہو تو تیرگی ہوگی
اس لیے سب ترے مخالف تھے
تو نے انکی نہیں سنی ہوگی
تم جو گم سم اداس رہتے ہو
اس طرح کیسے نوکری ہوگی
ایک ہی موڈ ہوگا بن تیرے
مستقل دل کو بے کلی ہوگی
ٹیس جس کی نہیں گئی اب تک
بات دل سے کہی گئی ہوگی
خاتمہ داستاں کا یوں ہوگا
وہ مرے دل میں مر چکی ہوگی
غم زدوں کو ہے جس نے مارا وہ
غم نہیں غم کی آگہی ہوگی
دل نہ بہلے گا اس تسلی سے
صبر کر اس میں بہتری ہوگی
مجھ کو فیضان خوش گمانی ہے
وہ مری راہ دیکھتی ہوگی