برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین
بس یہ سمجھیں کہ بس چلا ہی نہیں
اس کو جانا تھا وہ رکا ہی نہیں
میں کسے ڈھونڈھتا رہا اس میں
کیا بتاوں مجھے پتہ ہی نہیں
یاد مجھکو سبھی وہ باتیں ہیں
یاد جن کو کبھی کیا ہی نہیں
میں بھی مرضی کی زندگی جی لوں
مجھ میں لیکن یہ حوصلہ ہی نہیں
خود کو مصروف کر لیا لیکن
دل کسی کام میں لگا ہی نہیں
قہقہے مارتا رہا ہوں میں
اور سچ میں کبھی ہنسا ہی نہیں
زندگی یہ بدل بھی سکتی تھی
ساتھ تو نے مگر دیا ہی نہیں
راستہ اس کا روک لیتا میں
وہ مجھے بول کر گیا ہی نہیں
میں جنھیں زندگی سمجھتا تھا
ان سے اب کوئی واسطہ ہی نہیں
ہوتا ہوگا سکون رشتوں میں
میں نے ڈھونڈھا مجھے ملا ہی نہیں
یوں اذیت اٹھائی جس کے لیے
وہ تو فیضان میرا تھا ہی نہیں
 
فیضان بھائی، آداب!
بہت خوب، ماشاء اللہ۔ بہت اچھی غزل ہے۔ میرے پاس زیادہ کچھ نہیں ہے کہنے کو سوائے داد کے :)

یاد مجھکو سبھی وہ باتیں ہیں
یاد جن کو کبھی کیا ہی نہیں
پہلے مصرعے میں غیر ضروری تعقید محسوس ہوتی ہے۔ ’’یاد ہیں مجھ کو وہ سبھی باتیں‘‘ کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ ’’کو‘‘ کو طویل کھینچنا بھی نہیں پڑتے گا۔ ’’مجھ‘‘ کی جگہ ’’ہم‘‘ بھی لایا جاسکتا ہے جو ایسے مضامین کے بیان کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہاں، دونوں مصرعوں میں یاد کی تکرار شاید قابل اعتراض ہو۔ استادِ محترم اس حوالے سے بہتر بتا سکتے ہیں۔

زندگی یہ بدل بھی سکتی تھی
ساتھ تو نے مگر دیا ہی نہیں
پہلے مصرعے میں ’’یہ‘‘ بھرتی کا معلوم ہوتا ہے، نیز ’’بدل‘‘ کی بجائے اگر ’’سنور‘‘ کہا جائے تو؟
زندگانی سنور بھی سکتی تھی
یا
زیست اپنی سنور بھی سکتی تھی

راستہ اس کا روک لیتا میں
وہ مجھے بول کر گیا ہی نہیں
اگر اس مفہوم کی نثر لکھیں تو آپ کا مافی الضمیر شاید یوں بیان ہوگا ۔۔۔ ’’ میں اس کو جانے سے روک تو لیتا مگر وہ مجھے بتا کر ہی نہیں گیا‘‘۔
اسی وجہ سے مجھے یہ شعر کچھ تشنۂ الفاظ محسوس ہوا۔ ویسے ضروری نہیں دوسروں کو بھی ایسا ہی لگے۔ آپ فکر کرکے دیکھیں، ممکن ہے کوئی مزید بہتر صورت ممکن ہو۔

ایک بار پھر بہت داد۔

دعاگو،
راحلؔ
 

فیضان قیصر

محفلین
فیضان بھائی، آداب!
بہت خوب، ماشاء اللہ۔ بہت اچھی غزل ہے۔ میرے پاس زیادہ کچھ نہیں ہے کہنے کو سوائے داد کے :)


پہلے مصرعے میں غیر ضروری تعقید محسوس ہوتی ہے۔ ’’یاد ہیں مجھ کو وہ سبھی باتیں‘‘ کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ ’’کو‘‘ کو طویل کھینچنا بھی نہیں پڑتے گا۔ ’’مجھ‘‘ کی جگہ ’’ہم‘‘ بھی لایا جاسکتا ہے جو ایسے مضامین کے بیان کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہاں، دونوں مصرعوں میں یاد کی تکرار شاید قابل اعتراض ہو۔ استادِ محترم اس حوالے سے بہتر بتا سکتے ہیں۔


پہلے مصرعے میں ’’یہ‘‘ بھرتی کا معلوم ہوتا ہے، نیز ’’بدل‘‘ کی بجائے اگر ’’سنور‘‘ کہا جائے تو؟
زندگانی سنور بھی سکتی تھی
یا
زیست اپنی سنور بھی سکتی تھی


اگر اس مفہوم کی نثر لکھیں تو آپ کا مافی الضمیر شاید یوں بیان ہوگا ۔۔۔ ’’ میں اس کو جانے سے روک تو لیتا مگر وہ مجھے بتا کر ہی نہیں گیا‘‘۔
اسی وجہ سے مجھے یہ شعر کچھ تشنۂ الفاظ محسوس ہوا۔ ویسے ضروری نہیں دوسروں کو بھی ایسا ہی لگے۔ آپ فکر کرکے دیکھیں، ممکن ہے کوئی مزید بہتر صورت ممکن ہو۔

ایک بار پھر بہت داد۔

دعاگو،
راحلؔ

بے حد شکریہ راحل بھائی- یوں اگر کہیں تو

میں اسے جانے ہی نہیں دیتا
وہ مگر بول کر گیا ہی نہیں
 
بے حد شکریہ راحل بھائی- یوں اگر کہیں تو

میں اسے جانے ہی نہیں دیتا
وہ مگر بول کر گیا ہی نہیں
ویسے تو ٹھیک ہے، مگر مجھے ’’بول کر جانے‘‘ اور ’’بتا کر جانے‘‘ میں تردد ہے، کہ محاورتاً درست کیا ہوگا۔ میرے خیال میں ’’بول کر جانا‘‘ عوامی انداز ہے۔ واللہ اعلم :)
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بول کر جانا عوامی گفتگو سہی، لیکن سہل ممتنع کی غزل میں یقیناً گوارا ہو گا پہلا مصرع اصل ہی بہتر تھا۔
میں کسے ڈھونڈھتا رہا اس میں
کیا بتاوں مجھے پتہ ہی نہیں
واضح نہیں ہوا، 'اس' سے مراد محبوب ہی ہے، اس کی وضاحت ہو جائے تو بہتر ہے
باقی راحل سے متفق ہوں۔
یاد کا دونوں مصرعوں میں دہرایا جانا اچھا لگتا ہے یہاں، رہنے دو۔
 

فیضان قیصر

محفلین
بول کر جانا عوامی گفتگو سہی، لیکن سہل ممتنع کی غزل میں یقیناً گوارا ہو گا پہلا مصرع اصل ہی بہتر تھا۔
میں کسے ڈھونڈھتا رہا اس میں
کیا بتاوں مجھے پتہ ہی نہیں
واضح نہیں ہوا، 'اس' سے مراد محبوب ہی ہے، اس کی وضاحت ہو جائے تو بہتر ہے
باقی راحل سے متفق ہوں۔
یاد کا دونوں مصرعوں میں دہرایا جانا اچھا لگتا ہے یہاں، رہنے دو۔
بہت شکریہ سر
 
Top