بدر القادری
محفلین
اسّلام علیکم،
حضرت شکیل بدایونی صاحب قادری کی ایک غزل سالوں قبل نظروں سے گزری تھی آج بھی زبان پر آجاتی ہے
حضرت شکیل بدایونی صاحب قادری کی ایک غزل سالوں قبل نظروں سے گزری تھی آج بھی زبان پر آجاتی ہے
حسن مصروفِ رونمائی ہے
کیا نگاہوں کی موت آئی ہے
اِسی زمین پر کچھ خامہ فرسائی کر نے کی حماقت ہوگئی، ...یا جسارت، خیر جو کہئیے۔صحیح ہے یا غلط آپ حضرات کی خدمت میں پیش ہے۔کیا نگاہوں کی موت آئی ہے
حسن مصروفِ خودنمائی ہے
آج خطرے میں پار سائی ہے
ہائے کیا انجمن آرائی ہے
میں ہوں اور عالمِ تنہائی ہے
یہ جو ہر موڑ پہ تنہائی ہے
راست گوئی کی سزا پائی ہے
یا ترے غم میں کمی آئی ہے
یا مرا زورِ شکیبائی ہے
جوش کھاتی ہےاُسکی محفل میں
کیا جوانی کی موت آئی ہے
سنگ معبود ہےمسجود شجر
کیسی دنیا خدا بنائی ہے
پھر ہو تعمیر کیا عمارتِ دل
جو تری بے رخی نے ڈھائی ہے
کچھ تعلّق تو ہم سے ہو اُنکو
نہ وفا ہے نہ بے وفائی ہے
عشق ہےاُنسے مگر باعثِ یاس
شدّتِ دل میں کمی آئی ہے
تمام اساتذۂ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے۔آج خطرے میں پار سائی ہے
ہائے کیا انجمن آرائی ہے
میں ہوں اور عالمِ تنہائی ہے
یہ جو ہر موڑ پہ تنہائی ہے
راست گوئی کی سزا پائی ہے
یا ترے غم میں کمی آئی ہے
یا مرا زورِ شکیبائی ہے
جوش کھاتی ہےاُسکی محفل میں
کیا جوانی کی موت آئی ہے
سنگ معبود ہےمسجود شجر
کیسی دنیا خدا بنائی ہے
پھر ہو تعمیر کیا عمارتِ دل
جو تری بے رخی نے ڈھائی ہے
کچھ تعلّق تو ہم سے ہو اُنکو
نہ وفا ہے نہ بے وفائی ہے
عشق ہےاُنسے مگر باعثِ یاس
شدّتِ دل میں کمی آئی ہے
خاکِ پائے شُعرا
بدر القادری
بدر القادری
آخری تدوین: