Muhammad Ishfaq

محفلین
پانی پر حباب سی
تیرا جو شباب سی
میرا جو خیال تھا
وہ تو اک سراب سی
زندگی یوں گزری ہے
جیسے احتساب سی
وہ تو کوئی اور تھا
یوں لگا جناب سی
رات بھی اندھیری تھی
رستہ بھی خراب سی
اپنے کیوں خفا ہوئے
میں کھلی کتاب سی
فرش پر جو حبس ہے
عرش پر سحاب سی
 
ردیف سمجھ نہیں آرہا، کہیں اردو کے "جیسا" کے معنی میں آرہا ہے تو کہیں پنجابی والا "سی" محسوس ہوتا ہے!

دوسرے یہ کہ جس بحر میں طبع آزمائی کی ہے وہ بھی لکھ دیں۔
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
ردیف سمجھ نہیں آرہا، کہیں اردو کے "جیسا" کے معنی میں آرہا ہے تو کہیں پنجابی والا "سی" محسوس ہوتا ہے!

دوسرے یہ کہ جس بحر میں طبع آزمائی کی ہے وہ بھی لکھ دیں۔
ہزج مربع اشتر مقبوض
فاعلن مفاعلن بحر ہے اور سی کا مطلب تھا تھی تھےاورجیسی جیسا ہے
 
ہزج مربع اشتر مقبوض
فاعلن مفاعلن بحر ہے اور سی کا مطلب تھا تھی تھےاورجیسی جیسا ہے
گویا راحل بھائی کا شبہ درست ثابت ہوا، آپ نے اردو اور پنجابی کو گڈ مڈ کردیا ہے۔ مزاحیہ نظم میں تو شاید ایسا کرنا جائز ہوتا لیکن سنجیدہ اردو شاعری میں مناسب نہیں کہ اردو میں پنجابی کی ملاوٹ کریں۔ جہاں جہاں آپ نے پنجابی لفظ ’’سی‘‘ استعمال کیا ہے وہاں تھا یا تھی کا محل ہے۔ بعض جگہوں پر آپ نے اپنے بیان کے مطابق جیسا یا جیسی کے معنوں میں استعمال کیا ہے، وہاں آپ کو مصرع تبدیل کرنا پڑے گا۔ ویسے بھی بہت سے مصرعے وزن میں نہیں۔

ردیف سمجھ نہیں آرہا، کہیں اردو کے "جیسا" کے معنی میں آرہا ہے تو کہیں پنجابی والا "سی" محسوس ہوتا ہے!

دوسرے یہ کہ جس بحر میں طبع آزمائی کی ہے وہ بھی لکھ دیں۔
 
صرف ( فاعلن مفاعلن) یہ کوئی معروف بحر تو نہیں لگتی۔سی کی جگہ تھا لکھا جائے تو اکثر مصرعوں میں بات قابلِ فہم بن سکتی ہے لیکن بحر کا مسئلہ پھر بھی رہے گا
 
صرف ( فاعلن مفاعلن) یہ کوئی معروف بحر تو نہیں لگتی۔سی کی جگہ تھا لکھا جائے تو اکثر مصرعوں میں بات قابلِ فہم بن سکتی ہے لیکن بحر کا مسئلہ پھر بھی رہے گا
فاعلن مفاعلن جیسی چھوٹی بحر میں بھی غزل ہوسکتی ہے۔
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
اساتذہ اکرام ! شکریہ
اس کا مطلب یہ ہوا ۔کہ سی پنجابی کا لفظ ہے۔اور سی کی جگہ تھا رکھنے سے غزل ہوسکتی ہے۔
 
اساتذہ اکرام ! شکریہ
اس کا مطلب یہ ہوا ۔کہ سی پنجابی کا لفظ ہے۔اور سی کی جگہ تھا رکھنے سے غزل ہوسکتی ہے۔
پنجابی "سی" اردو کے "تھا/تھے" کے معنی استعمال ہوتا ہے
اردو میں "سی" ۔۔۔ "جیسی" کے معنی میں آتا ہے۔
جیسا کہ میر کا مشہور مصرعہ ہے
پنکھڑی اک گلاب کی "سی" ہے

یہاں "سی" سے مراد "جیسی" ہے۔
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
پانی پر حباب تھا
تیرا جو شباب تھا
میرا جو خیال تھا
وہ تو اک سراب تھا
زندگی یوں گزری ہے
جیسے احتساب تھا
وہ تو کوئی اور تھا
یوں لگا جناب تھا
رات بھی اندھیری تھی
رستہ بھی خراب تھا
اپنے کیوں خفا ہوئے
میں کھلی کتاب تھا
فرش پر جو حبس ہے
عرش پر سحاب تھا
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
مجھے آپ کی الجھن سمجھ نہیں آرہی۔ میرؔ ’’سی‘‘ پنجابی والی ’’سی‘‘ کے معنی میں استعمال کی ہے؟؟؟
سر ! در اصل میں نے تو ‘‘سی ’’ اردو لفظ سمجھ کر استعمال کیاتھا ۔میرے ذہن میں نہیں آیا کہ یہ پنجابی لفظ ہے۔آگے آپ جو راہنمائی فرمائیں۔مجھے کیا کرنا ہے۔
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
پانی پر حباب تھا
تیرا جو شباب تھا
میرا جو خیال تھا
وہ تو اک سراب تھا
زندگی یوں گزری ہے
جیسے احتساب تھا
وہ تو کوئی اور تھا
یوں لگا جناب تھا
رات بھی اندھیری تھی
رستہ بھی خراب تھا
اپنے کیوں خفا ہوئے
میں کھلی کتاب تھا
فرش پر جو حبس ہے
عرش پر سحاب تھا
معزز اساتذہ اکرام !
برائے مہربانی اس پر بھی اپنی رائے کا اظہارکریں اور راہنمائی فرمائیں۔ شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
شروع میں تو میں یہی سمجھا تھا کہ شاید عزیزی اشفاق پٹھان واقع ہوئے ہیں جو مذکر کی صورت میں بھی 'سا' کی جگی 'سی' استعمال کر گئے ہیں ۔ معلوم یہ ہوا کہ غیر پنجابی ہونے کی وجہ سے میرے فرشتوں کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ پنجابی کا لفظ ہو سکتا ہے حالانکہ میں جانتا تھا کہ سی پنجابی میں تھا، تھی کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی اردو شاعری میں کر سکتا ہے، یہ گمان سے باہر تھا۔ میں نے تو اسے ہر جگہ 'جیسی' کے معنی میں لیا تھا۔
بہر حال اب تو 'تھا' ردیف ہے۔ اس لیے وہ بحث ختم!
پانی پر حباب تھا
تیرا جو شباب تھا
.. فاعلم مفاعلن کے افاعیل پر حروف کے اسقاط سے ہی درست باندھا جا سکتا ہے جو ہر جگہ گوارا نہیں کیا جا سکتا
آب پر حباب تھا
جو ترا شباب تھا
بہتر یو گا

میرا جو خیال تھا
وہ تو اک سراب تھا
... ٹھیک، پہلا مصرع 'جو مرا' کہیں تو وہی معنی نکل سکتے ہیں؟

زندگی یوں گزری ہے
جیسے احتساب تھا
... یہ عجز بیان کا شکار ہے۔ زندگی خود احتساب نہیں، اس کا گزرنا 'ایک' احتساب ہو سکتا ہے۔

وہ تو کوئی اور تھا
یوں لگا جناب تھا
... جناب کے ساتھ 'تھا' کا استعمال بیک وقت تعظیم و تحقیر لگتا ہے، اس شعر کو نکال ہی دیں

رات بھی اندھیری تھی
رستہ بھی خراب تھا
اندھیری کی ی اور رستہ کی ہ کا اسقاط ناگوار لگتا ہے

اپنے کیوں خفا ہوئے
میں کھلی کتاب تھا
.. دوسرا مصرع عجز بیان ہے، مکمل بات 'میں تو ایک کھلی کتاب تھا'
ہونا چاہیے تھا

فرش پر جو حبس ہے
عرش پر سحاب تھا
.. فرش و عرش سے مراد زمین و آسمان ہر جگہ نہیں لیا جا سکتا
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
شروع میں تو میں یہی سمجھا تھا کہ شاید عزیزی اشفاق پٹھان واقع ہوئے ہیں جو مذکر کی صورت میں بھی 'سا' کی جگی 'سی' استعمال کر گئے ہیں ۔ معلوم یہ ہوا کہ غیر پنجابی ہونے کی وجہ سے میرے فرشتوں کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ پنجابی کا لفظ ہو سکتا ہے حالانکہ میں جانتا تھا کہ سی پنجابی میں تھا، تھی کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی اردو شاعری میں کر سکتا ہے، یہ گمان سے باہر تھا۔ میں نے تو اسے ہر جگہ 'جیسی' کے معنی میں لیا تھا۔
بہر حال اب تو 'تھا' ردیف ہے۔ اس لیے وہ بحث ختم!
پانی پر حباب تھا
تیرا جو شباب تھا
.. فاعلم مفاعلن کے افاعیل پر حروف کے اسقاط سے ہی درست باندھا جا سکتا ہے جو ہر جگہ گوارا نہیں کیا جا سکتا
آب پر حباب تھا
جو ترا شباب تھا
بہتر یو گا

میرا جو خیال تھا
وہ تو اک سراب تھا
... ٹھیک، پہلا مصرع 'جو مرا' کہیں تو وہی معنی نکل سکتے ہیں؟

زندگی یوں گزری ہے
جیسے احتساب تھا
... یہ عجز بیان کا شکار ہے۔ زندگی خود احتساب نہیں، اس کا گزرنا 'ایک' احتساب ہو سکتا ہے۔

وہ تو کوئی اور تھا
یوں لگا جناب تھا
... جناب کے ساتھ 'تھا' کا استعمال بیک وقت تعظیم و تحقیر لگتا ہے، اس شعر کو نکال ہی دیں

رات بھی اندھیری تھی
رستہ بھی خراب تھا
اندھیری کی ی اور رستہ کی ہ کا اسقاط ناگوار لگتا ہے

اپنے کیوں خفا ہوئے
میں کھلی کتاب تھا
.. دوسرا مصرع عجز بیان ہے، مکمل بات 'میں تو ایک کھلی کتاب تھا'
ہونا چاہیے تھا

فرش پر جو حبس ہے
عرش پر سحاب تھا
.. فرش و عرش سے مراد زمین و آسمان ہر جگہ نہیں لیا جا سکتا
محترمی ومکرمی الف عین صاحب !
راہنمائی کے لیے بہت بہت شکریہ۔ بس یوں سمجھیے ابھی ہم طفلِ مکتبِ ادب ہیں آپ کی راہنمائی میں سیکھ رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

Muhammad Ishfaq

محفلین
آ تے آ تے ٹل گیا
جو بڑا عذاب تھا
چہرہ کیسے دیکھتا
منہ پر نقاب تھا
ان اشعار پر بھی اپنی راہنمائی سے نوازیں۔
 

الف عین

لائبریرین
آ تے آ تے ٹل گیا
جو بڑا عذاب تھا
... درست

چہرہ کیسے دیکھتا
منہ پر نقاب تھا
... دوسرا مصرع بحر سے خارج ہو گیا ہے
رخ پہ اک نقاب تھا
یا
رخ پہ جو....
سے درست ہو سکتا ہے
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
آ تے آ تے ٹل گیا
جو بڑا عذاب تھا
... درست

چہرہ کیسے دیکھتا
منہ پر نقاب تھا
... دوسرا مصرع بحر سے خارج ہو گیا ہے
رخ پہ اک نقاب تھا
یا
رخ پہ جو....
سے درست ہو سکتا ہے
شکریہ سر۔ ذرا انہیں بھی دیکھ لینا۔
گھر میں آگ لگنے کا
دکھ ہی بےحساب تھا
غم نے یوں بھنا اِسے
جیسے دل کباب تھا
 
Top