شروع میں تو میں یہی سمجھا تھا کہ شاید عزیزی اشفاق پٹھان واقع ہوئے ہیں جو مذکر کی صورت میں بھی 'سا' کی جگی 'سی' استعمال کر گئے ہیں ۔ معلوم یہ ہوا کہ غیر پنجابی ہونے کی وجہ سے میرے فرشتوں کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ پنجابی کا لفظ ہو سکتا ہے حالانکہ میں جانتا تھا کہ سی پنجابی میں تھا، تھی کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی اردو شاعری میں کر سکتا ہے، یہ گمان سے باہر تھا۔ میں نے تو اسے ہر جگہ 'جیسی' کے معنی میں لیا تھا۔
بہر حال اب تو 'تھا' ردیف ہے۔ اس لیے وہ بحث ختم!
پانی پر حباب تھا
تیرا جو شباب تھا
.. فاعلم مفاعلن کے افاعیل پر حروف کے اسقاط سے ہی درست باندھا جا سکتا ہے جو ہر جگہ گوارا نہیں کیا جا سکتا
آب پر حباب تھا
جو ترا شباب تھا
بہتر یو گا
میرا جو خیال تھا
وہ تو اک سراب تھا
... ٹھیک، پہلا مصرع 'جو مرا' کہیں تو وہی معنی نکل سکتے ہیں؟
زندگی یوں گزری ہے
جیسے احتساب تھا
... یہ عجز بیان کا شکار ہے۔ زندگی خود احتساب نہیں، اس کا گزرنا 'ایک' احتساب ہو سکتا ہے۔
وہ تو کوئی اور تھا
یوں لگا جناب تھا
... جناب کے ساتھ 'تھا' کا استعمال بیک وقت تعظیم و تحقیر لگتا ہے، اس شعر کو نکال ہی دیں
رات بھی اندھیری تھی
رستہ بھی خراب تھا
اندھیری کی ی اور رستہ کی ہ کا اسقاط ناگوار لگتا ہے
اپنے کیوں خفا ہوئے
میں کھلی کتاب تھا
.. دوسرا مصرع عجز بیان ہے، مکمل بات 'میں تو ایک کھلی کتاب تھا'
ہونا چاہیے تھا
فرش پر جو حبس ہے
عرش پر سحاب تھا
.. فرش و عرش سے مراد زمین و آسمان ہر جگہ نہیں لیا جا سکتا