سخن آرائی

محفلین
تمام معزز اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے


کس آس پہ کہیے کہ ہاں اچھا یہ برس ہے
جب لذتِ گریہ نہ کہیں لطفِ جرس ہے
اسلاف کی میراث سے بیزار ہے امت
آدابِ غلامی سے یا معمور قفس ہے
گوندھا ہوا بس عشق جو تیری بنا میں ہو
پھر تیرا نگہبان تجھے تیرا نفس ہے
جو تجھ سے چھپا دے یہاں تیری ہی حقیقت
وہ عشق نہیں عشق نہیں وہ تو ہوس ہے
تھی جستجو کامل تو جہاں کر دیا شیریں
کہنے کو جو کمزور سی بے کار مگس ہے
غافل جو حسین ابنِ علی ہو ترا رہبر
خطوں کی بھی پروا وہاں تو کارِ عبث ہے
 

الف عین

لائبریرین
کس آس پہ کہیے کہ ہاں اچھا یہ برس ہے
جب لذتِ گریہ نہ کہیں لطفِ جرس ہے
... ایطا ہو گیا ہے قافیے میں، برس، جرس کے ساتھ 'رس' پر ختم ہونے والے قوافی کا نظم ہونا چاہیے تھا

اسلاف کی میراث سے بیزار ہے امت
آدابِ غلامی سے یا معمور قفس ہے
... دوسرے مصرعے میں 'یا' بھرتی کا لگ رہا ہے

گوندھا ہوا بس عشق جو تیری بنا میں ہو
پھر تیرا نگہبان تجھے تیرا نفس ہے
.. پہلا مصرع روانی چاہتا ہے، ثانی میں بھی 'تجھے' بھرتی کا ہے، اسے 'ترا اپنا' یا 'فقط تیرا' سے بدل دیں

جو تجھ سے چھپا دے یہاں تیری ہی حقیقت
وہ عشق نہیں عشق نہیں وہ تو ہوس ہے
.. پہلا مصرع یہاں بھی روانی کا خواستگار ہے

تھی جستجو کامل تو جہاں کر دیا شیریں
کہنے کو جو کمزور سی بے کار مگس ہے
.. دونوں مصرعوں میں صیغہ الگ ہے، پہلے میں بھی حال استعمال کرو
جیسے 'کر دیتی ہے شیریں'

غافل جو حسین ابنِ علی ہو ترا رہبر
خطوں کی بھی پروا وہاں تو کارِ عبث ہے
... 'وہاں تو' روانی مخدوش کر رہا ہے
خطوں کی پروا ہی کیوں، میری ناقص عقل میں تو نہیں آیا
 

سخن آرائی

محفلین
کس آس پہ کہیے کہ ہاں اچھا یہ برس ہے
جب لذتِ گریہ نہ کہیں لطفِ جرس ہے
... ایطا ہو گیا ہے قافیے میں، برس، جرس کے ساتھ 'رس' پر ختم ہونے والے قوافی کا نظم ہونا چاہیے تھا
اوہو --- اس طرف تو بالکل دھیان نہیں رہا
اب آپ ہی کچھ مشورہ دیں کہ ایطا کا کیا کرنا چاہیے


اسلاف کی میراث سے بیزار ہے امت
آدابِ غلامی سے یا معمور قفس ہے
... دوسرے مصرعے میں 'یا' بھرتی کا لگ رہا ہے
اسلاف کی میراث سے بیزار ہے امت
آدابِ غلامی سے یہ معمور قفس ہے

گوندھا ہوا بس عشق جو تیری بنا میں ہو
پھر تیرا نگہبان تجھے تیرا نفس ہے
.. پہلا مصرع روانی چاہتا ہے، ثانی میں بھی 'تجھے' بھرتی کا ہے، اسے 'ترا اپنا' یا 'فقط تیرا' سے بدل دیں
گوندھا ہوا گر عشق ہی تیری بنا میں ہو
پھر تیرا نگہبان فقط تیرا نفس ہے


جو تجھ سے چھپا دے یہاں تیری ہی حقیقت
وہ عشق نہیں عشق نہیں وہ تو ہوس ہے
.. پہلا مصرع یہاں بھی روانی کا خواستگار ہے
تجھ سے بھی چھپا دے یہاں تیری جو حقیقت
وہ عشق نہیں عشق نہیں وہ تو ہوس ہے

تھی جستجو کامل تو جہاں کر دیا شیریں
کہنے کو جو کمزور سی بے کار مگس ہے
.. دونوں مصرعوں میں صیغہ الگ ہے، پہلے میں بھی حال استعمال کرو
جیسے 'کر دیتی ہے شیریں'
ہے جستجو کامل تو جہاں کرتی ہے شیریں
کہنے کو جو کمزور سی بے کار مگس ہے


غافل جو حسین ابنِ علی ہو ترا رہبر
خطوں کی بھی پروا وہاں تو کارِ عبث ہے
... 'وہاں تو' روانی مخدوش کر رہا ہے
غافل جو حسین ابنِ علی ہو ترا رہبر
خطوں کی بھی پروا یہاں پھر کارِ عبث ہے
خطوں کی پروا ہی کیوں، میری ناقص عقل میں تو نہیں آیا
محترم شاید میں صحیح معنوں میں اپنا مقصد بیان نہیں کر پایا اصل میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں خطوط دھوکے کی علامت ہیں جو کہ اہلِ کوفہ کی طرف سے لکھے گئے تھے جن خطوط کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی طرف سفر کا ارادہ فرمایا تھا
حاصلِ کلام یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ حق کی علامت ہیں اور خط دھوکے کی علامت ہیں اور یہ اُن لوگوں سے خطاب ہے جو لوگ حق پر اس خوف سے غفلت برتتے ہیں کہ اس میں تکالیف بہت جھیلنا پڑتی ہیں جن تکالیف میں دھوکہ سب سے زیادہ مہلک ہوتا ہے اور پروا کرنے کو عبث اس لیے کہا کہ کامیابی کسی ہدف کو حاصل کرنے میں نہیں بلکہ حق کے راستے پر نکلنا اور ڈٹے رہنا ہی کامیابی ہوتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اسلاف کی میراث سے بیزار ہے امت
آدابِ غلامی سے یہ معمور قفس ہے
غلامی ہی کیوں؟ میرے خیال میں اس کے بدلے دوسرا کوئی لفظ استعمال کیا جائے تاکہ اس بھرتی کے 'یہ' سے بھی نجات مل جائے
.... کے آداب سے معمور قفس ہے
گوندھا ہوا گر عشق ہی تیری بنا میں ہو
پھر تیرا نگہبان فقط تیرا نفس ہے
اب تو پہلا مصرع دوسری ہی بحر میں ہو گیا! میرے خیال میں 'بنا' کی جگہ مٹی ہی استعمال کریں جو محاورہ بھی درست ہو جائے،
جیسے
گوندھا ہوا جب عشق ہی مٹی میں ترے ہو

غافل جو حسین ابنِ علی ہو ترا رہبر
خطوں کی بھی پروا یہاں پھر کارِ عبث ہے
اوہو، یہ خطوط کو خطوں لکھا گیا تھا، تلفظ کے لحاظ سے بھی خِ طّ و ں آ رہا تھا جو میں بالکل تلمیح سمجھ ہی نہیں سکا، یہ شعر واضح کریں
باقی اشعار درست ہو گئے ہیں
 
Top