یاسر علی
محفلین
نگاہِ ناز سے وہ کہہ رہا تھا لوٹ آئوں گا
بچھڑنے وقت میں نے یہ سنا تھا لوٹ آؤں گا
بہت جلدی میں سویا ہوں کہ شاید پھر ملے وہ آج
کہ کل شب خواب میں اس نے کہا تھا لوٹ آؤں گا
کھڑا رہتا ہوں در پر اس کے استقبال کی خاطر
مجھے پیغام قاصد سے ملا تھا لوٹ آؤں گا
مجھے امید ہے لوٹے گا لکھ کر ایک خط اس نے
سرہانے کے مرے نیچے رکھا تھا لوٹ آؤں گا
کبھی بھی بند دروازہ نہیں میں نے کیا گھر کا
بچھڑے وقت کہہ کر وہ گیا تھا لوٹ آؤں گا
فقط اس آس میں میثم کبھی گھر سے نہیں نکلا
وفا کے آخری خط میں لکھا تھا لوٹ آؤں گا
یاسر علی میثم
بچھڑنے وقت میں نے یہ سنا تھا لوٹ آؤں گا
بہت جلدی میں سویا ہوں کہ شاید پھر ملے وہ آج
کہ کل شب خواب میں اس نے کہا تھا لوٹ آؤں گا
کھڑا رہتا ہوں در پر اس کے استقبال کی خاطر
مجھے پیغام قاصد سے ملا تھا لوٹ آؤں گا
مجھے امید ہے لوٹے گا لکھ کر ایک خط اس نے
سرہانے کے مرے نیچے رکھا تھا لوٹ آؤں گا
کبھی بھی بند دروازہ نہیں میں نے کیا گھر کا
بچھڑے وقت کہہ کر وہ گیا تھا لوٹ آؤں گا
فقط اس آس میں میثم کبھی گھر سے نہیں نکلا
وفا کے آخری خط میں لکھا تھا لوٹ آؤں گا
یاسر علی میثم
آخری تدوین: