یاسر علی
محفلین
مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
نہ عشق کی کتاب ہے نہ عشق کا سکول ہے
تو سوچ دل نہ عشق کر یہ عشق تو فضول ہے
نظر ملا کے دل یہ لے یہ دل چرا کے جان لے
تو سوچ دل نہ عشق کر یہ عشق کا اصول ہے
یہ عشق تو عذاب ہے دکھوں کی یہ کتاب
ہے خار کی چبھن لئے یہ دیکھنے میں پھول ہے
تلاش کر وفا وہاں حسین دل ہو جس کا بس
وفا ملے گی حسن میں یہ عاشقوں کی بھول ہے
کہ دل کے ہی سرور میں یہ اپنا سر لٹا دیا
ہزار ہا کہا اے دل ںہ عشق کر فضول ہے
نظر کا تھا قصور پر سزا بھگت رہا ہے دل
بتا اے دل کہا تھا کیوں یہ عشق تو قبول ہے
کسی نہ سچ کہا تھا یہ کہ دل ہوتا ہے بادشاہ
لٹا دیا ہے سارا کچھ نہیں ہوا ملول ہے
بچھڑ گیا ہے جب سے تو بہار بھی چلی گئی
گھڑی گھڑی ہی دل پہ میرے درد کا نزول ہے
لٹا دیا ہے سارا کچھ فقط بچی ہے جان اک
جو جان جان مانگ لے تو جان بھی قبول ہے
نہ عشق کی کتاب ہے نہ عشق کا سکول ہے
تو سوچ دل نہ عشق کر یہ عشق تو فضول ہے
نظر ملا کے دل یہ لے یہ دل چرا کے جان لے
تو سوچ دل نہ عشق کر یہ عشق کا اصول ہے
یہ عشق تو عذاب ہے دکھوں کی یہ کتاب
ہے خار کی چبھن لئے یہ دیکھنے میں پھول ہے
تلاش کر وفا وہاں حسین دل ہو جس کا بس
وفا ملے گی حسن میں یہ عاشقوں کی بھول ہے
کہ دل کے ہی سرور میں یہ اپنا سر لٹا دیا
ہزار ہا کہا اے دل ںہ عشق کر فضول ہے
نظر کا تھا قصور پر سزا بھگت رہا ہے دل
بتا اے دل کہا تھا کیوں یہ عشق تو قبول ہے
کسی نہ سچ کہا تھا یہ کہ دل ہوتا ہے بادشاہ
لٹا دیا ہے سارا کچھ نہیں ہوا ملول ہے
بچھڑ گیا ہے جب سے تو بہار بھی چلی گئی
گھڑی گھڑی ہی دل پہ میرے درد کا نزول ہے
لٹا دیا ہے سارا کچھ فقط بچی ہے جان اک
جو جان جان مانگ لے تو جان بھی قبول ہے