یاسر علی

محفلین
برائے اصلاح
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:


نہ دنیا نہ دولت نہ زر چاہیے
مجھے دلنشیں ہمسفر چاہیے

نہ مہتاب, خورشید کی ہے طلب
مجھے ایک نورِ نظر چاہیے

مجھے چاہیئے زندگی میں صنم
نہ یاقوت لعل و گہر چاہیے

بسی ذات جس میں فقط ایک ہو
مجھے ایسا قلب وجگر چاہیے

جو آنکھوں میں چاہت کو پہچان لے
کوئی ایسا اہلِ نظر چاہیے

رکھو پاس اپنے تجھے اذن ہے
وفادار دل یہ اگر چاہیے

گھڑی دو گھڑی کا میں قائل نہیں
ترا ساتھ تو عمر بھر چاہیے

مجھے عشرتوں کی ضرورت نہیں
مجھے آپ کا سنگِ در چاہیے

زمانے میں میثم کو بس دوستو
فقط شاعری کا ہنر چاہیے
یاسر علی میثم
 
اساتذہ کرام سے گزارش ہے کہ مرے کلام کی اصلاح کر دیں۔۔
شکریہ ۔
یاسر میاں، اب آپ کے ذمے کچھ مشقت لگانے کا وقت ہوا چاہتا ہے. اب تک آپ کو اپنے کلام کی اصلاح کے دوران کئی نئی باتیں سیکھنے کو ملی ہوں گی. اب آپ ایسا کیجئے کہ ایک دو دن اس غزل کے ساتھ گزاریے اور اس کو ان سب نکات کی روشنی میں، جو اب تک آپ کی شاعری کی اصلاح کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں، خود پرکھئے، اصلاح کیجئے اور دوبارہ پوسٹ کیجئے.
اس کو اپنا مڈٹرم امتحان سمجھ لیجئے :)

دعاگو،
راحل.
 

یاسر علی

محفلین
محترم راحل صاحب آداب!

آپ نے کہا ہے تو میں مزید ایک دو دن غزل کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرتا ہوں۔
میں پچھلا تمام جو یہاں پوسٹ کیا تھا ۔اس کو دوبارہ ریڈ کر کے جو آپ لوگوں نے نقائص کی نشاندہی کی ان کو اپنے تئیں درست کرنے کی بھر پور کوشش کروں گا ۔
اگر پھر بھی کوئی کمی رہ گئی تو آپ راہنمائی فرما دیجیئے گا۔۔۔
شکریہ
 

یاسر علی

محفلین
محترم راحل صاحب آداب !

میں نے ایک دن اور ایک رات اس کلام کے ساتھ گزاری ہے ۔میں نے اپنے تئیں بھر کوشش کی اپنے کلام کی اصلاح کرنے کی ۔معمولی سی تدوین کے بعد آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔۔
اگر پھر بھی کوئی کمی ہو تو ضرور اصلاح فرما دیجیئے ۔شکریہ۔۔


نہ دنیا نہ دولت نہ زر چاہیے
مجھے دلنشیں ہمسفر چاہیے

نہ مہتاب, خورشید کی ہے طلب
فقط ایک نورِ نظر چاہیے

مجھے چاہیے زندگی میں صنم
نہ یاقوت لعل و گہر چاہیے

بسی ذات جس میں فقط ایک ہو
مجھے ایسا قلب وجگر چاہیے

جو آنکھوں میں چاہت کو پہچان لے
کوئی ایسا اہلِ نظر چاہیے

رکھو پاس اپنے تجھے اذن ہے
وفادار دل یہ اگر چاہیے

گھڑی دو گھڑی کا میں قائل نہیں
ترا ساتھ تو عمر بھر چاہیے

مجھے عشرتوں کی ضرورت نہیں
فقط آپ کا سنگِ در چاہیے

زمانے میں میثم کو بس دوستو
فقط شاعری کا ہنر چاہیے
یاسر علی میثم
 
میاں، ہم نے دو ایک دن کا محاورتا کہا تھا، آپ اس کو بالفعل لے بیٹھے اور گن کر بس ایک دن اور ایک رات ہی گزار سکے. سو وہی ہوا جس کا قوی تر امکان تھا! مجھے تو دونوں مسودوں میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوا.

نہ دنیا نہ دولت نہ زر چاہیے
مجھے دلنشیں ہمسفر چاہیے
ٹھیک ہے، مگر مزید بہتر ہوسکتا ہے. میں پہلے بھی شاید عرض کر چکا ہوں کہ جمع نفیین کی صورت میں کلمہ نفی کی تکرار فصاحت کے خلاف ہوتی ہے. اسی مصرع کی اگر نثر لکھیں تو یوں لکھیں گے کہ "مجھے دنیا چاہیئے، دولت نہ ہی زر."
آپ نے دیکھا کہ تینوں اشیاء کی نفی کے لئے کلمہ نفی محض ایک بار استعمال ہوا ہے. بعینہ یہی اسلوب شاعری میں بھی پسندیدہ ہے.
ذرا سا غور کریں تو اسی خیال کی ادائیگی کے لئے مزید بہتر بندشیں کی جاسکتی ہیں. مثلا
ہمیں جاہ، شہرت، نہ زر چاہیئے
بس اک دلنشیں ہم سفر چاہیئے

نہ مہتاب, خورشید کی ہے طلب
فقط ایک نورِ نظر چاہیے
یہاں مہتاب اور خورشید کے مابین و کے ذریعے عطف ہونا چاہیئے یعنی مہتاب و خورشید کہا جائے. ویسے میرے خیال میں زیادہ فصیح املا ماہتاب ہے، مگر اس کا وزن میں آنا ذرا مشکل ہے.
علاوہ ازیں اس پیرائے میں نہ سے مصرعے کا شروع ہونا بھی اچھا نہیں لگ رہا. الفاظ کی یہ ترتیب غیر فطری ہے جس کو تعقید لفظی کہا جاتا ہے.
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ شعر میں فاعل موجود نہیں ہے. یعنی کس کو نور نظر درکار ہے؟؟؟؟
نور نظر سے یاد آیا کہ عام محاورے میں یہ ترکیب محبوب سے زیادہ بیٹے کے لئے میں استعمال کی جاتی ہے.

مجھے چاہیے زندگی میں صنم
نہ یاقوت لعل و گہر چاہیے
لفظ صنم کا سنجیدہ شاعری میں استعمال صرف ایک صورت میں فصیح ہوتا ہے جب اس کو محبوب کو کسی سنگ دل بت سے تشبیہ دینے کے لئے استعمال کیا جائے، جیسا کہ قدماء کے یہاں رواج رہا ہے. صرف محبوب کے لئے کنایتاً اس کا استعمال فلمی گانوں میں ہی روا ہوسکتا ہے.
علاوہ ازیں دوسرے مصرعے میں ردیف گرائمر کے حساب سے درست نہیں بیٹھ رہی. جب آپ نے ایک سے زیادہ اشیاء کا مجموعہ بنا لیا تو اب چاہیئے نہیں کہا جاسکتا، چاہئیں کہنا درست ہوگا.

بسی ذات جس میں فقط ایک ہو
مجھے ایسا قلب وجگر چاہیے
یہاں بھی پہلا مصرعہ تعقید کا شکار ہے.
دوسرے مصرعے میں وہی گرائمر کا مسئلہ ہے، "قلب و جگر" کے ساتھ "چاہئیں" آنا چاہیئے.
سمائی ہو جس میں فقط ایک ذات
وہ دل چاہیئے، وہ جگر چاہیئے

رکھو پاس اپنے تجھے اذن ہے
وفادار دل یہ اگر چاہیے
پہلے مصرعے میں شترگربہ ہے. ایک ہی مصرعے، شعر یا نظم میں ضمیر مخاطب کے مختلف صیغے یعنی تو، تم اور آپ جمع نہیں ہوسکتے. تجھے کو تمھیں سے بدل دیں.
دوسرے مصرعے میں دل کے لئے وفادار کے علاوہ کوئی اور وصف استعمال کریں، وفادار دل کچھ خاص ترکیب نہیں.

زمانے میں میثم کو بس دوستو
فقط شاعری کا ہنر چاہیے
مطلق زمانے "میں" کیوں شاعری کا ہنر کیوں چاہیئے؟؟؟
دوستو بھی یہاں بھرتی کا ہے.
مقطع بہت ہی ہلکا ہے، خیال واضح نہیں، بیان بھی الجھا ہوا ہے. دوبارہ فکر کرکے دیکھیں.

دعاگو،
راحل.
 

یاسر علی

محفلین
بہت شکریہ راحل صاحب!

سر جس طرح قلب و جگر اور یاقوت لعل و گہر کے ساتھ چاہیئیں آئے گا ۔
کیو نکہ ایک سے زائد اشیا کا استعمال ہے ۔
تو پہلے شعر کے پہلے مصرع میں چاہیئے کیوں آئے گا ۔وہاں پر بھی تو جاہ , دولت, شہرت تین چیزوں کا ذکر ہو چکا ہے ۔
راہنمائی درکار ہے ۔
شکریہ ۔​
 

یاسر علی

محفلین
ایک میر کا شعر نظر سے گزرا ۔

عشق میں نے خوف و خطر چاہئے
جان دینے کو ہے جگر چاہئے

اس میں بھی خوف و خطر دو چیزیں استعما ہوئییں ہے ۔اور چاہئے استعمال کیا ہے۔۔
 
حضرت میر کی مثال خوب ڈھونڈ نکالی آپ نے، اس کا مطلب ہے کہ مطالعہ بڑھانے کے مشورے پر عمل کر رہے ہیں.
آپ اگر ذرا َسا غور کریں گے تو واضح ہوجائے گا کہ میر کے شعر میں چاہیئے کیوں روا ہے اور آپ کے اشعار میں کیوں نہیں.
پہلے مطلع اور دوسرے اشعار کی بابت عرض کردوں. مطلع میں اشیاء کے مابین عطف نہیں کیا گیا، بلکہ تینوں کو علیحدہ علیحدہ مستقلا ذکر کیا گیا ہے، اس لئے وہاں "چاہیئے" کہنا ہی درست ہے.
دیگر اشعار میں دو مختلف مادی اشیاء جیسے قلب اور جگر، اور یاقوت اور گہر کو واؤ عطف کے ساتھ جمع کیا گیا ہے، اس لئے وہاں چاہئیں آئے گا.
حضرت میر کے شعر میں مجموعہ دو کیفیات کا ہے، جو محاورہ میں عموما ایک ہی معنی میں بطور ترکیب اور واحد استعمال کی جاتی ہیں، اس لئے انہوں نے خوف و خطر کے ساتھ واحد کا صیغہ استعمال کیا.
امید ہے اب بات واضح ہوگئی ہوگی.
 

یاسر علی

محفلین
شکریہ راحل صاحب کافی حد تک سمجھ چکا ہوں۔۔
اور مطالعہ بھی کر رہا ہوں۔۔
داغ دہلوی کا۔۔
 

یاسر علی

محفلین
محترم راحل صاحب آداب!

اب دیکھئے گا۔۔


مجھے جاہ شہرت نہ زر چاہیے
فقط دلنشیں ہمسفر چاہیے

طلب ہے نہ خورشید و مہتاب کی
مجھے ایک نورِ نظر چاہیے

مجھے چاہیے زندگانی میں تُو
نہ گل ,چاند, شبنم, گہر چاہیے

سمائی ہو جس میں فقط ایک ذات
وہ دل چاہئیے ,وہ جگر چاہیے

جو آنکھوں میں چاہت کو پہچان لے
کوئی ایسا اہلِ نظر چاہیے

گھڑی دو گھڑی کا میں قائل نہیں
ترا ساتھ تو عمر بھر چاہیے

مجھے عشرتوں کی ضرورت نہیں
فقط آپ کا سنگِ در چاہیے

ابھی تیرے قدموں میں جاں وار دوں
تجھے جان میثم اگر چاہیے


سر ایک سوال ہے ۔
رکھو پاس اپنے تجھے اذن ہے
وفادار دل یہ اگر چاہئیے ۔
سر جی اس مین شتر گربہ" اپنے" کے ساتھ تمھیں آئے گا۔
تجھے نہیں آئے گا یہ وجہ ہے ۔۔یا کوئ اور وجہ ہے ۔راہنمائی فرمائیئے گا ۔۔
شکریہ ۔۔
 
آخری تدوین:
مجھے چاہیے زندگانی میں تُو
نہ گل ,چاند, شبنم, گہر چاہیے
دوسرے مصرعے کو یوں کر لیں
نہ گل چاہیئے، نَے گہر چاہیئے

ویسے "نَے" اب تقریبا متروک ہی ہوچلا ہے مگر ضرورت شعری کے تحت کہیں کہیں گوارا کر لیا جاتا ہے.

سر ایک سوال ہے ۔
رکھو پاس اپنے تجھے اذن ہے
وفادار دل یہ اگر چاہئیے ۔
سر جی اس مین شتر گربہ" اپنے" کے ساتھ تمھیں آئے گا۔
تجھے نہیں آئے گا یہ وجہ ہے ۔۔یا کوئ اور وجہ ہے ۔
شتر گربہ "رکھو" کے ساتھ "تجھے" کی وجہ سے ہے، رکھو تم کا صیغہ ہے اور تجھے تُو کا. ان دونوں کو جمع نہیں کیا جاسکتا. "اپنے" کا اس مسئلے سے تعلق نہیں.
 
Top