میاں، ہم نے دو ایک دن کا محاورتا کہا تھا، آپ اس کو بالفعل لے بیٹھے اور گن کر بس ایک دن اور ایک رات ہی گزار سکے. سو وہی ہوا جس کا قوی تر امکان تھا! مجھے تو دونوں مسودوں میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوا.
نہ دنیا نہ دولت نہ زر چاہیے
مجھے دلنشیں ہمسفر چاہیے
ٹھیک ہے، مگر مزید بہتر ہوسکتا ہے. میں پہلے بھی شاید عرض کر چکا ہوں کہ جمع نفیین کی صورت میں کلمہ نفی کی تکرار فصاحت کے خلاف ہوتی ہے. اسی مصرع کی اگر نثر لکھیں تو یوں لکھیں گے کہ "مجھے دنیا چاہیئے، دولت نہ ہی زر."
آپ نے دیکھا کہ تینوں اشیاء کی نفی کے لئے کلمہ نفی محض ایک بار استعمال ہوا ہے. بعینہ یہی اسلوب شاعری میں بھی پسندیدہ ہے.
ذرا سا غور کریں تو اسی خیال کی ادائیگی کے لئے مزید بہتر بندشیں کی جاسکتی ہیں. مثلا
ہمیں جاہ، شہرت، نہ زر چاہیئے
بس اک دلنشیں ہم سفر چاہیئے
نہ مہتاب, خورشید کی ہے طلب
فقط ایک نورِ نظر چاہیے
یہاں مہتاب اور خورشید کے مابین و کے ذریعے عطف ہونا چاہیئے یعنی مہتاب و خورشید کہا جائے. ویسے میرے خیال میں زیادہ فصیح املا ماہتاب ہے، مگر اس کا وزن میں آنا ذرا مشکل ہے.
علاوہ ازیں اس پیرائے میں نہ سے مصرعے کا شروع ہونا بھی اچھا نہیں لگ رہا. الفاظ کی یہ ترتیب غیر فطری ہے جس کو تعقید لفظی کہا جاتا ہے.
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ شعر میں فاعل موجود نہیں ہے. یعنی کس کو نور نظر درکار ہے؟؟؟؟
نور نظر سے یاد آیا کہ عام محاورے میں یہ ترکیب محبوب سے زیادہ بیٹے کے لئے میں استعمال کی جاتی ہے.
مجھے چاہیے زندگی میں صنم
نہ یاقوت لعل و گہر چاہیے
لفظ صنم کا سنجیدہ شاعری میں استعمال صرف ایک صورت میں فصیح ہوتا ہے جب اس کو محبوب کو کسی سنگ دل بت سے تشبیہ دینے کے لئے استعمال کیا جائے، جیسا کہ قدماء کے یہاں رواج رہا ہے. صرف محبوب کے لئے کنایتاً اس کا استعمال فلمی گانوں میں ہی روا ہوسکتا ہے.
علاوہ ازیں دوسرے مصرعے میں ردیف گرائمر کے حساب سے درست نہیں بیٹھ رہی. جب آپ نے ایک سے زیادہ اشیاء کا مجموعہ بنا لیا تو اب چاہیئے نہیں کہا جاسکتا، چاہئیں کہنا درست ہوگا.
بسی ذات جس میں فقط ایک ہو
مجھے ایسا قلب وجگر چاہیے
یہاں بھی پہلا مصرعہ تعقید کا شکار ہے.
دوسرے مصرعے میں وہی گرائمر کا مسئلہ ہے، "قلب و جگر" کے ساتھ "چاہئیں" آنا چاہیئے.
سمائی ہو جس میں فقط ایک ذات
وہ دل چاہیئے، وہ جگر چاہیئے
رکھو پاس اپنے تجھے اذن ہے
وفادار دل یہ اگر چاہیے
پہلے مصرعے میں شترگربہ ہے. ایک ہی مصرعے، شعر یا نظم میں ضمیر مخاطب کے مختلف صیغے یعنی تو، تم اور آپ جمع نہیں ہوسکتے. تجھے کو تمھیں سے بدل دیں.
دوسرے مصرعے میں دل کے لئے وفادار کے علاوہ کوئی اور وصف استعمال کریں، وفادار دل کچھ خاص ترکیب نہیں.
زمانے میں میثم کو بس دوستو
فقط شاعری کا ہنر چاہیے
مطلق زمانے "میں" کیوں شاعری کا ہنر کیوں چاہیئے؟؟؟
دوستو بھی یہاں بھرتی کا ہے.
مقطع بہت ہی ہلکا ہے، خیال واضح نہیں، بیان بھی الجھا ہوا ہے. دوبارہ فکر کرکے دیکھیں.
دعاگو،
راحل.