محمل ابراہیم
لائبریرین
کر سکی میں ادا نہ قرض ترا
زندگی تیری قرضدار ہوں میں
تجھ پہ تہمت ہے ظلم و تعدی کی
سچ تو یہ ہے ستم شعار ہوں میں
آرزو ہے کہ رازدار ملیں
خود کو دیکھوں کہ رازدار ہوں میں
کر سکی نہ نثار جاں اپنی
اور کہتی ہوں جاں نثار ہوں میں
بے کلی ہی ظہورِ انساں ہے
ہے دلیل اسکی بے قرار ہوں میں
ہے سحر مجھ میں خوفِ تاریکی
صرف سورج کی پاسداری ہوں میں
زندگی تیری قرضدار ہوں میں
تجھ پہ تہمت ہے ظلم و تعدی کی
سچ تو یہ ہے ستم شعار ہوں میں
آرزو ہے کہ رازدار ملیں
خود کو دیکھوں کہ رازدار ہوں میں
کر سکی نہ نثار جاں اپنی
اور کہتی ہوں جاں نثار ہوں میں
بے کلی ہی ظہورِ انساں ہے
ہے دلیل اسکی بے قرار ہوں میں
ہے سحر مجھ میں خوفِ تاریکی
صرف سورج کی پاسداری ہوں میں